حضرت علی (ع) کی ولادت اور یومِ پدر
تحریر: سلمی خاتون حیدری
خداوند متعال نے انسان کو تمام مخلوقات پر برتری و افضلیت عطا کرکے کائنات میں اشرف المخلوقات قرار دیا اور اس کو بے شمار نسبی رشتوں میں پرویا ہے اور ہر رشتے کی اہمیت، عظمت حقوق وفرائض کو مکمل طور پر بیان کیا ہے، ان میں سے ایک اہم رشتہ باپ کا رشتہ ہے۔
خداوند متعال نے انسان کو تمام مخلوقات پر برتری و افضلیت عطا کرکے کائنات میں اشرف المخلوقات قرار دیا اور اس کو بے شمار نسبی رشتوں میں پرویا ہے اور ہر رشتے کی اہمیت، عظمت حقوق وفرائض کو مکمل طور پر بیان کیا ہے، ان میں سے ایک اہم رشتہ باپ کا رشتہ ہے۔
باپ وہ ہستی ہے جن کے بارے میں شاعر نے کیا خوب کہا ہے ” مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود وہ جلتا رہا۔
میں نے دیکھا اک فرشتہ باپ کی پرچھائیں میں“
اسی لیے اسلام میں باپ کو انسانی رشتوں میں سب سے اہم مقام حاصل ہے۔اور اسلامی تاریخ میں بعض آئیڈیل شخصیات ایسی ہیں۔جن کو مثالی باپ قرار دیا ہے۔ان میں نمایاں و مشہور ہستی امیر المومنین کی ذات گرامی ہے جو دیگر اوصاف کے ساتھ ایک مثالی باپ بھی ہیں۔
١٣ رجب سنہ ٣٠ عام الفیل کو مولائے کاٸنات امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی یوم ولادت باسعات ہے۔اس روز دنیا میں بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران میں “یوم پدر”کے عنوان سے منایا جاتا ہے !
خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: أنا و علیُّ اَبَوَا ھَذِہِ الامہ ; میں اور علی اس امت کے باپ ہیں۔
ساتھ ہی تاریخ انسانیت کی عظیم شخصیات امام حسن ،امام حسین،حضرت عباس، زینب کبری و ام کلثوم جیسی مایہ ناز ہستیوں کی تربیت آپ ہی کی زیر سرپرستی میں ہوئی۔جن میں سے ہر ایک انسانی کمالات میں اوج پر ہیں اور آپ کی تربیت کے شاہکار ہیں۔اس لیے اگر اسلامی معاشرے میں ایک باپ کو نمونہ عمل کے طور پر تعارف کرایا جائے تو آپ ہی کی ذات سب سے زیادہ موزوں اور کسی دن کو (father’s Day)کے طور پر منایا جائے تو آپ کا یوم ولادت اسی دن کے لیے ہر لحاظ سے مناسب ہے۔باپ وہ ہستی ہے جن کا اعلی مقام و ایثار،لطف و کرم ، پیار و محبت اور الفت کے مجموعے کا دوسرا نام ”باپ“ ہے۔اگر باپ کے مقام و عظمت کی پاس داری کرتے ہوٸے ان کی اطاعت ،فرماں برداری، عزت و تعظیم کرکے ان کی رضایت حاصل کی جاٸے تو خداوند متعال بھی ہمیں دنیا وآخرت کی کامیابیاں اور سعادتیں عطا فرماٸے گا۔ ہمارے معاشرہ میں باپ کے مقام کو بہت کم اجاگر کیا جاتا ہے، یہ بات ذہن نشین کرنا چاہیٸے کہ نہ صرف قرآن مجید کے دستورات و احکامات بلکہ فرامین معصومین علیہ السلام میں بھی والدین کی تعظیم و توقیر کا حکم دیا گیا ہے۔والد ہی بنی نوع بشر کی پیداٸش کا سبب ہے۔امام سجاد علیہ السلام اولاد پر باپ کے حقوق کے بارے میں فرماتے ہیں: وَ أَمَّا حَقُّ أَبِيكَ فَتَعْلَمُ أَنَّهُ أَصْلُكَ وَ أَنَّكَ فَرْعُهُ وَ أَنَّكَ لَوْلَاهُ لَمْ تَكُنْ فَمَهْمَا رَأَيْتَ فِي نَفْسِكَ مِمَّا يُعْجِبُكَ فَاعْلَمْ أَنَّ أَبَاكَ أَصْلُ النِّعْمَةِ عَلَيْكَ فِيهِ وَ احْمَدِ اللَّهَ وَ اشْكُرْهُ عَلَى قَدْرِ ذَلِكَ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ۔
تمہارے اوپر تمہارے باپ کا حق یہ ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ تمہاری اصل و بنیاد ہے اور تم اس کی شاخ اور فرع ہو اگر وہ نہ ہوتے تو تمہارا وجود نہ ہوتا پس جب تم اپنے اندر کوئی ایسی چیز دیکھو کہ جو تمہیں خود پسندی میں مبتلا کر دے تو اس وقت تم یہ خیال کرو کہ اس نعمت کا سبب تمہارا باپ ہے اور اس پر خدا کا شکر اور ثنا کرو اور خدا کے علاوہ کوئی طاقت و قوت نہیں ہے۔
باپ خاندان کا سربراہ ہے۔ ان پر فرض ہ کہ وہ اپنے تجربات اور مشاہدات سے اپنے گھر اور اردگرد کے ماحول کو بہتر سے بہتر بناٸے،اور تربیت اولاد میں بھی باپ کا کردار زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ باپ ہی بچوں کی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے اور ہر قسم کی مدد کرکے انہیں زندگی کے ہر میدان میں اُتارتا ہے۔ انہیں زندگی کے واقعات کے حالات و واقعات کا سامنا کرنے کے قابل بناتا ہے۔
اسلامی معاشرہ میں والد کے مقام،حقوق وذمہ داریوں کو سمجھنے کے لیے حضرت امیر المومنین کی سیرت وکردار کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔کہ انہوں نے ایک باپ کی حیثیت سے اپنی اولاد اور بچوں کو کیاپیغام دیا۔خصوصا امام کا ٣١ خط جو سن ٣٨ ہجری میں آپ نے صفین سے واپسی پر اپنے بیٹے کے نام لکھا وہ ایک مثالی باپ کی اپنی اولاد کے لیے بہترین نصائح پر مشتمل ہے۔اس خط کی روشنی میں ایک باپ اپنے بچوں کے مستقبل اور زندگی کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام امام حسن علیہ السلام کو اپنی اصلاح کے مراحل،بچے کی تربیت میں سبقت لے جانا،بچوں کی تربیت کا طریقہ ،معنویات پر توجہ کی ضرورت،موت کی یاد،آخرت پر غور و فکر،زاد راہ کو مہیا کرنے کی سفارش، قبولیت دعا کے شرائط، رحمت کی نشانی،دنیا پرست لوگوں کی پہچان ، عورت کی منزلت،اخلاق کی حیثیت اور اجتماعی اخلاق کا معیار جیسے اہم مسائل کی جانب رہنمائی کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:یابُنَیَّ، اِجْعَلْ نَفْسَكَ مِیزَاناً فِیمَا بَینَكَ وَبَینَ غَیرِكَ، فَأَحْبِبْ لِغَیرِكَ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ، وَاکْرَهْ لَهُ مَا تَکْرَهُ لَهَا، وَلاَ تَظْلِمْ كَمَا لاتُحِبُّ أَنْ تُظْلَمَ، وَأَحْسِنْ كَمَا تُحِبُّ أَنْ یحْسَنَ إِلَیكَ،
وَاسْتَقْبِحْ مِنْ نَفْسِكَ مَا تَسْتَقْبِحُهُ مِنْ غَیرِكَ، وَارْضَ مِنَ النَّاسِ بِمَا تَرْضَاهُ لَهُمْ مِنْ نَفْسِكَ، وَلاَ تَقُلْ مَا لاتَعْلَمُ، وَإِنْ قَلَّ مَا تَعْلَمُ وَلاَ تَقُلْ مَا لاتُحِبُّ أَنْ یقَالَ لَكَ.
بیٹا! دیکھو اپنے اور غیر کے درمیان میزان اپنے نفس کو قرار دو اور دوسرے کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو اور اس کے لئے بھی وہ بات ناپسند کرو جو اپنے لئے پسند نہیں کرتے ہو۔ کسی پر ظلم نہ کرنا کہ اپنے اوپر ظلم پسند نہیں کرتے ہو اور ہر ایک کے ساتھ نیکی کرنا جس طرح چاہتے ہو کہ سب تمہارے ساتھ نیک برتاؤ کریں اور جس چیز کو دوسرے کے لٸے برا سمجھتے ہو اسے اپنے لئے بھی برا ہی تصور کرنا۔لوگوں کی اس بات سے راضی ہو جانا جس سے اپنی بات سے لوگوں کو راضی کرنا چاہتے ہو۔ بغیر علم کوئی بات زبان سے نہ نکالنا اگرچہ تمہارا علم بہت کم ہے اور کسی کے بارے میں وہ بات نہ کہنا جو اپنے بارے میں پسند نہ کرتے ہو۔
وَاعْلَمْ أَنَّ الاِْعْجَابَ ضِدُّ الصَّوَابِ، وَآفَةُ الاَْلْبَابِ، فَاسْعَ فِی كَدْحِكَ، وَلاَ تَكُنْ خَازِناً لِغَیرِكَ، وَإِذَا أَنْتَ هُدِیتَ لِقَصْدِكَ فَكُنْ أَخْشَعَ مَا تَكُونُ لِرَبِّكَ.
یاد رکھو کہ خود پسندی راہ صواب کے خلاف اور عقلوں کی بیماری ہے لہٰذا اپنی کوشش تیز تر کرواور اپنے مال کو دوسروں کے لئے ذخیرہ نہ بناؤ اور اگر درمیانی راستے کی ہدایت مل جائے تو اپنے رب کے سامنے سب سے زیادہ خضوع و خشوع سے پیش آنا۔
یہ ایک ایسا وصیت نامہ ہے جس سے ہر باپ کو استفادہ کرنا چاہٸیے اور اپنی اولاد کو انہیں خطوط پر وصیت و نصیحت کرنا چاہٸیے ورنہ اس کا مکمل مضمون نہ مولائے کائنات پرمنطبق ہوتا ہے اور نہ امام حسن علیہ السلام پر اورنہ ایسے وصیت نامہ کسی ایک فرد سے مخصوص ہواکرتے ہیں۔
یہ انسانیت کا عظیم ترین منشور ہے جس میں عظیم باپ نے عظیم بیٹے کو مخاطب قرار دیا ہے تاکہ دیگر افراد ملت اس سے استفادہ کریں بلکہ عبرت حاصل کریں۔