تحریر: ریٔس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رح ٥٣٧ ہجری میں صوبہ خراسان میں پیداہوئے ۔ آپ باپ کی طرف سے حسینی اور ماں کی طرف سے حسنی ہیں ۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی آپ کے والدِ بزرگوار ایک بڑے عالم تھے۔ آپ رح نے نو سال کی عمر میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیا ۔ بعد میں آپ نے سنجر کے ایک مکتب میں علم تفسیر ، فقہ اور حدیث کی تعلیم پائی ۔ جب آپ رح نے چودہ سال کی عمر پائی تو والد بزرگ کا وصال ہوا۔ ایک سال بعد ہی یعنی پندرہ سال کی عمر میں ہی والدہ کا بھی انتقال ہوگیا ۔ اپنی معاش ایک پن چکی اور باغ جو والد صاحب نے چھوڑا تھا سے حاصل کرتے رہے ۔ آپ بچپن سےہی درویشوں ، صوفیوں اور فقیروں کی صحبت سے محبّت رکھتے تھے ۔ نوعمری میں ہی جب آپ اپنے باغ کی آبپاشی کررہے تھے تو اچانک ایک مجزوب شخص شیخ ابراہیم قندوزی رح وہاں سے گزرے ۔ جب آپ کی نظر ان پہ پڑی تو فوراً اس کے پاس گزرے ، اسے درخت کے نیچے ساۓ میں بٹھایا اور انگوروں کا ایک خوبصورت خوشہ ان کی خدمت میں پیش کیا ۔ مجزوب کو خواجہ صاحب کی یہ ادا بہت پسند آئی اور اس نے جواجہ صاحب کو اس چیز سے مالامال کردیا جس کا وہ متلاشی تھا ۔ خواجہ رح نے مزید دنیاوی علوم حاصل کرنے کے لئے دوردراز اور کٹھن دشوار گذار راستوں کو پار کر کے آخر کار مولانا حسام الدین رح سے دستار فضیلت حاصل کی ۔ چھوٹے سے قصبے ہارون میں ایک بلند پایہ مرد کامل خواجہ شیخ عثمانی ہارونی رح جلوہ افروز تھے اور ان کی وجہ سے تمام قصبہ خیروبرکت سے معمور تھا ۔ آپ رح نے حضرت خواجہ عثمان ہارونی رح کے دست حق پرست پر بیعت کی اور پیر کامل نے آپ کو اپنے حلقہ ارادت میں داخل فرما لیا ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رح ایک عرصہ سے ہی حضرت خواجہ عثمان ہارونی رح کے معتقد تھے اب اس قدر شیدائی ہوگۓ کہ ہر وقت اپنے پیرومرشد کی خدمت میں حاضر رہتے ، پیر کا بستر ، توشہ ، پانی کا مشکیزہ وغیرہ اپنے سر اور کندھوں پر رکھ کر ہم سفر ہوتے تھے ۔ آپ رح نے بیس سال تک اپنے پیرومرشد کی خدمت بابرکت میں رہ کر ریاضت و مجاہدات کۓ اور معرفت و حقیقت کی تمام منزلیں طے فرمالیں ۔ آپ رح نے خواجہ عثمان ہارونی رح سے رخصت حاصل کرکے بغداد کا رخ کیا ۔ راستے میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں سے ملاقات ہوئی ۔ شیخ ابوالحسن خرقانی رح ، شیخ ناصرالدین رح ، شیخ محمود اصفہانی رح وغیرہ آپ سے ملے اور پھر ہمدان پہنچ کر حضرت شیخ یوسف ہمدانی رح سے بھی ملاقات ہوئی ۔ ہمدان سے آپ تبریز کی طرف نکل پڑے اور وہاں حضرت شیخ ابو سید تبریزی رح آپ سے ملاقی ہوئے ۔ ہمدان سے ہوکر آب رح نے بغداد کا جو علم و فن کا مرکز تھا اور جلیل القدر علماء ، صوفیاء ، صلحاء اور اولیاء کرام وہاں موجود تھے سفر کیا ۔ آپ رح نے ان کی محفلوں میں رہ کر فیض حاصل کیا ۔ آپ رح نے وہاں شیخ ابو نجیب سہروردی اور شیخ عبدالقادر جیلانی رح کے مزار انوار پر حاضری دے کر اعتکاف فرمایا ۔ ٥٨٣ ہجری میں آپ رح نے خانہ کعبہ کی زیارت کی اور بے شمار سعادتیں اور برکتیں حاصل کیں ۔ مکہ معظمہ کے بعد آپ رح نے مدینہ منورہ کی بھی زیارت فرمائی ۔ روضہ اقدس کے قریب حاضر ہو کر درودوسلام کا نظرانہ پیش کیا اور بعد نماز فجر وہاں سے ندا آئی کہ “معین الدین کو بلاؤ” ۔ حاضر ہو کر خود رسول کاینات صلی االلہ علیہ السلام نے ان سے فرمایا ” اے معین الدین! تو ہمارے دین کا معین ہے ، ہم نے ولایت ہند تجھے عطا کی”. بارگاہ رسالت سے رخصت ہو کر خواجہ معین الدین چشتی رح بغداد پہنچے جہاں ان کے مرشد خواجہ عثمان ہارونی رح قیام پذیر تھے ۔ ان کی خدمت میں وہ اٹھائیس دن رہے ۔ جو کچھ آپ رح نے اپنے مرشد پاک سے سنا اسے اٹھائیس باب کے ایک رسالے میں قلمبند کیا جس کا نام انیس الارواح رکھا۔ ہرات سے کوچ فرما کر خواجہ غریب نواز رح سبزوار پہنچے ، سبزوار سے روانہ ہو کر آپ رح غزنی پہونچے ، پھر لاہور جاتے ہوئے سمانا پٹیالہ پہنچے اور وہاں قیام فرمایا ۔ سمانا سے روانہ ہوکر خواجہ رح دہلی میں رونق افروز ہوئے ۔ دہلی میں آپ رح نے تبلیغ دین کا کام بڑی دل نشینی اور جانفشانی سے انجام دیا کہ آپ کے پاس آنے والوں میں اکثر لوگ آپ کے دست حق پرست پر ایمان لے آۓ ۔ رفتہ رفتہ مسلمانوں کی تعداد بڑھتی گئی اور دہلی میں فروغ اسلام نے تہلکہ مچادیا ۔ خواجہ معین الدین چشتی رح دہلی سے مطمئن ہوکر اپنے چالیس مریدوں کے ہمراہ اجمیر کے لئے روانہ ہوۓ ۔ اجمیر پہنچ کر آپ رح نے ایک سایہ دار درخت کے نیچے قیام فرمایا مگر چند ساربانوں نے اسے وہاں ٹھہرنے نہیں دیا بلکہ اپنے جملہ مریدوں کے ساتھ اناساگر کے کنارے پر واقع ایک پہاڑی پر ٹھہر گۓ ۔ ساربانوں نے جب دوسرے دن اپنے تمام اونٹ زمین کے ساتھ گویا باندھے ہوئے پاۓ اور وہ اپنی جگہوں سے اٹھ نہیں سکتے تھے تو فوراً خواجہ معین الدین چشتی رح کے پاس حاضر ہوۓ اور عاجزی و انکساری سے معافی مانگی تو تمام اونٹ خود کھڑے ہوگۓ ۔ اس کے علاوہ کئ ساری کرامات کو دیکھ کر وہاں کے اکثر لوگ ایمان لے آۓ اور اجمیر میں بھی دہلی کی طرح اسلام بڑی تیزی سے پھیلنے لگا۔ خواجہ صاحب رح کا بچپن مصیبتوں میں گزرا اور جوانی طلب علم اور فقیری کی نذر ہوگئ ۔ جب آپ رح کی عمر انسٹھ برس کی ہوگئی تو خواب میں دیدار مصطفٰی ہوا اور نکاح کا سنت بجا لانے کا حکم ملا۔ اس کے بعد آپ رح نے دو نکاح کیے ۔ دونوں بیویوں سے چار اولادیں ہوئیں ۔ ٦٣٣ ہجری شروع ہوتے ہی خواجہ معین الدین چشتی رح کو علم ہوگیا کہ یہ آخری سال ہے ۔ چنانچہ آپ رح نے اپنے مریدوں کو جن کی تعداد ٦٧ ہیں ضروری ہدایات اور وصیتیں فرمائیں ۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رح کو اجمیر بلایا اور اسے اپنا خلیفہ اعظم بنادیا ۔ وصال سے چند روز قبل اپنے بڑے بیٹے خواجہ سیّد فخر الدّین کو کچھ ضروری نصیحتیں فرمائی ۔ ٦٤٤ ہجری میں ٥ اور ٦ رجب کی درمیانی شب کو حسب معمول عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنے حجرے میں یاد خدا میں محو رہے اور صبح ہونے سے پہلے ہی آپ رح واصل بحق ہوۓ ۔ انتقال پُرملال کی خبر تمام گلیوں اور کوچوں میں پھیلی ۔ نماز جنازہ بڑے بیٹے سید فخر الدّین رح نے پڑھائی اور جس حجرہ میں آپ رح نے انتقال فرمایا اسی میں آپ کو دفن بھی کیا گیا ۔ آپ رح کا عرس مبارک ہر سال یکم رجب سے ٦ رجب تک بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے ۔ اللہ ہمیں اس بلند مرتبہ ولی کامل کے وسیلے سے ہمارے تمام مشکلات کو آسان کردے اور ہمیں اس کی دکھائی ہوئی نیک راہ پر چلنے کی توفیق عطاء فرماۓ آمین ۔۔۔