0

حزب اللہ کا اسرائیل کو دہشت گردانہ حملے کا جواب کیا ہوگا؟

لبنانی روزنامہ الاخبار کے مدیر ابراہیم امین نے اپنے ایک مضمون میں لبنانی شہریوں کے خلاف صیہونی حکومت کے دہشت گردانہ سائبر حملے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ تل ابیب اپنی تکنیکی اور انٹیلیجنس برتری کو ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

اس حملے نے یہ ثابت کر دیا کہ جب وہ غزہ اور فلسطین میں وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ کہیں بھی کچھ بھی کر سکتا ہے، لہذا اب تنازعات کے حل کے لئے صلح کی بات کرنا بے سود ہے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ اسرائیل اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ اس آپریشن کا ہدف حاصل نہیں کرسکا ہے اور نہ ہی وہ لبنانی مزاحمت کو ہتھیار ڈالنے اور غزہ کی حمایت بند کرنے پر مجبور کر سکا ہے۔

ابراہیم امین نے صیہونی حکومت کی کل کی کارروائی کو پرلے درجے کی سفاکیت قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس آپریشن نے لبنان کے ساتھ جنگ ​​کے بارے میں تل ابیب کے وحشی پن برملا کر دیا ہے، خاص طور پر چونکہ یہ رجیم جانتی تھی کہ اس کارروائی میں عام شہریوں کو نقصان پہنچے گا۔

الاخبار کے ایڈیٹر لکھتے ہیں کہ مزاحمتی فورسز اچھی طرح جانتی ہیں کہ حساس مراکز میں اس طرح کا سامان نہیں لایا جانا چاہیے، اس لیے اس واقعے کے بہت سے متاثرین عام شہری تھے اور ان میں سے بہت سے آلات گھروں، دفاتر یا گاڑیوں میں پھٹ گئے۔

اس آرٹیکل کے مطابق، دشمن نے کل کے آپریشن سے ثابت کیا کہ وہ تنازعات کے قوانین تک محدود نہیں رہنا چاہتا بلکہ شہریوں یا شہری بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ وہ مزاحمتی فورسز یا عام شہریوں میں کوئی فرق نہیں کرتے، کیونکہ وہ اس اعصاب شکن جنگ سے تھک چکے ہیں جسے مزاحمت نے جاری رکھی ہوئی ہے، لہذا صیہونی رجیم جنگی مساوات کو بدلنا چاہتی ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ لبنانی مزاحمت کو چاہیے کہ وہ اپنے مواصلاتی آلات میں دشمن کی دراندازی کے اصل ماخذ کو غور و فکر اور تحقیقات کے ساتھ تلاش کرے اور مزاحمتی محاذ پر اس آپریشن کے نفاذ اور اس کے نتائج کے حل کا جائزہ لے۔

ابراہیم امین نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ صیہونی دشمن اب بھی لبنان کی سرحدوں میں جنگ کے دائرے میں توسیع سے خوفزدہ ہے، واضح کیا کہ یہ تشویش دو نکات کی وجہ سے ہے: پہلا نکتہ یہ کہ صیہونی رجیم کو حزب اللہ کی رضوان فورسز کی شمالی صہیونی بستیوں یا اس سے بھی آگے کے مقبوضہ علاقوں پر زمینی کارروائیوں کا خوف ہے۔ اور دوسرا یہ کہ مزاحمت اپنے جدید ہتھیاروں کی کھیپ کو فوجی تنصیبات یا اسٹریٹجک مراکز پر میزائلوں کی بارش کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔

اس آرٹیکل کے مطابق دشمن جانتا ہے کہ وہ ان دونوں شعبوں میں کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھا سکتا، اس لیے وہ جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں تنازعات کے میدان کو وسعت دینے اور اسے پرتشدد فوجی کارروائیوں کے ساتھ جوڑنے کو ترجیح دیتا ہے۔

الاخبار کے ایڈیٹر نے اپنے مضمون کے آخر میں اس بات پر زور دیا کہ صیہونی حکومت نے اسی طرح کے خدشات کی بنیاد پر یہ دہشت گردانہ کاروائی کی ہے، لیکن مزاحمت یہ بھی جانتی ہے کہ اسے ان نکات میں رد عمل کا اظہار کرنا چاہیے جہاں وہ برتری رکھتی ہے، لہذا اسرائیلی فوج، سکیورٹی ادارے حتی صیہونی بستیوں کو اس جرم کی قیمت چکانی ہوگی۔

(مہر خبر)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں