جموں و کشمیر کے انتخابات
’’آنکھیں بھی تھک گئی ہیں اب انتظار کرکے ‘‘
رشید پروینؔ سوپور
جموں و کشمیر میں پچھلے انتخابات 2014 میں ہوئے تھے جس میں بی جے پی اور مفتی سعید کی ڈیمو کریٹک پارٹی نے اتحادی سر کار بنائی تھی۔ جون 2018بی جے پی نے اپنا سپورٹ محبوبہ سرکار سے واپس لے کر حکومت گرائی تھی اور اس کے ساتھ ہی تب کے گورنر ستیہ پال ملک نے اپنے ایک حکنامے کے تحت جموں و کشمیر میں گور نرس راج کا نفاظ عمل میں لایا تھا ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ۵ اگست ۲۰۱۹ کے روز ہی ریاست جموں و کشمیر کو دو یونین ٹریٹریوں میں نہ صرف تقسیم کیا گیا تھا بلکہ ریاست کی مخصوص دفعات ۳۷۰ اور ۳۵اے وغیرہ کو بھی ماضی کے دھندلکوں کی نذر کیا گیا تھا۔ آئین ہند میں ان دفعات کے تحت جموں و کشمیر کو ایک اسپیشل سٹیٹس حاصل تھا جس سے اس روز ختم کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف کئی رٹ پٹشنیںدائر کی گئیں لیکن ان پر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ یونین ٹریٹری کا درجہ پانے کے بعد ظاہر ہے کہ یہاں لیفٹنٹ گورنر کی تعیناتی ہی لازمی بنتی ہے اور آج کے یہاں لیفٹنٹ گوورنر منوج سنہا صاحب ہیں۔
یہ چند سطور آپ کی یاد داشت کو تازہ کرنے کے لئے لکھی ہیں۔ ۳۷۰ اور ۳۵ اے یا یوں کہیں گے کہ جموں و کشمیر کو حصوں میں بانٹنے کے دوران ہی اس بات کے تذکرے ہوئے تھے کہ کشمیر کو سٹیٹ ہڈ ’’مناسب وقت ‘‘پر واپس دی جائے گی اور تب سے بیچ بیچ میں یہ بات الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بھی بنتی رہی۔ بلکل اسی انداز میں انتخابات کی بات بار بار پریس میں آتی رہی ہے اور کہیں نہ کہیں کوئی بڑا اور کلیدی عہدے دار اس بات کو یاد دلاتا رہاہے کہ کشمیر میں انتخابات ہوں گے اور مرکزی سرکار کا موقف یہی ہے کہ انتخابات کی تاریخ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں ہے۔ عام لوگ بھی یہ سمجھ ہی رہے ہیں کہ الیکشن کمشنر بھی اپنی ہدایات کہاں اورکن کوارٹرس سے لیتا ہے، اس لئے یہ سرکار کا ہی موقف ٹھہرایا جاسکتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ مناسب ‘‘وقت کیا ہوسکتا ہے اور کس انداز کا ہوسکتا ہے جس کے آنے کی بڑی بے صبری سے انتظار ہورہا ہے اور جس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ بڑی دیر کردی صنم آتے آتے ۔۔ لیکن وادی کے جو اس وقت اور بقول گورنر صاحب اور مرکزی اعلیٰ اراکین کے یہاں مجموعی طور پر جو حالات ہیں وہ نارمل سے بھی کچھ زیادہ ہی نارمل دکھائی دیتے ہیں۔ ملی یٹینسی سرے سے ختم ہوچکی ہے۔ سطح زمین پر کوئی علیحدگی پسند یا شر پسند کہیں چراغ ہاتھ میں لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ ہر طرف خوشحالی اور سیاحوں کی آمد ہے بلکہ ریکارڈ توڈ آمد ہے، جس نے کشمیر کی تعمیر و ترقی میں بہت زیادہ رول اداکیا ہے اور آگے بھی سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوگا۔ امر ناتھ یاترا میں بھی لاکھوں کی تعداد میں یاتری اطمینان اور بغیر کسی ٖخوف و خطر کے یہاں درشن کے لئے آنا شروع ہوئے ہیں، جی ۲۰جو پہلی بار کشمیر کی پُرسکون ہواؤں میں منعقد ہوئی اس بات کی شہادت ہے کہ اب یہ سر زمین بلکل محفوظ ہے ا ور اس بڑے ایونٹ کے بغیر بھی کشمیر کی پُر فضا اورپُرسکون ہواؤںمیں کئی دوسرے بڑے ایونٹ بھی اور دوسری طرح کے جشن بھی منائے جاچکے ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی پر تو وادی کے پرسکون سیاسی ماحول کے تذکرے برستی بارش کے موافق نظر آتے ہیں ،پھر انتخابات میں دیر کیوں اور کیوں الیکشن کمیشن کوئی تاریخ نہیں دے رہا۔ کشمیر نشین تمام پارٹیا ں جو انتخابات میں پچھلے ۷۵ برسوں سے حصہ لیتی آرہی ہیں وہ بھی انتخابات کے لئے کمر کس چکی ہیں ، پھر کس بات کی دیری اور کس بات کا انتظار اور کس طرح کے مناسب وقت کا انتظار ہے جو ابھی تک الیکشن کمشنر صاحب انتخابات کی طرف نہیں جاتے ،، ؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے اور اس پسِ منظر میں بہت ہی واضح سی بات ہے۔ جب ہم ماضی قریب کی میں ہی ۱۹۹۶ کے انتخابات کی بات کریں گے ، جب کسی بھی شخص کا وادی میں پولنگ بوتھ پر آنا تو دور کی بات اس گھر سے باہر قدم رکھنے میں ہی اسے اپنی جان کا خطرہ نظر آتا تھا، جب وادی کے کم و بیش مقامات پر ڈر اور خوف کی وجہ سے لوگ اپنے آپ کو اپنے گھروں تک محدود کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے اور جانتے تھے ، لیکن اس انتشار اور سہمے سہمے سے ماحول میں بھی مرکزی سر کار نے یہاں انتخابات کرائے اس کے باوجود کہ سارا الیکشن عملہ تک باہر سے اس عمل کو مکمل کرنے کے لئے وادی میں لانا پڑا۔ ووٹنگ کی پرسنٹیج کیا رہی تھی اور کن لوگوں نے وؤٹ ڈالے تھے اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ہم صرف یہ کہیں گے کہ انتخابات کا عمل اور اس کے لوازمات پورے کئے گئے تھے ، کیونکہ یہ مرکزی سرکار کی شاید اپنی مجبوری تھی۔ اسی طرح سے ۲۰۰۲ میں بھی لگ بھگ اسی طرح کے ماحول میں پھر ایک بار انتخابات کا بگل بجایا گیا۔
سوال یہ ہے کہ جب ڈر، خوف اور اس طرح کے سیاسی اورمعا شرتی انتشار اور اضطراب میں الیکش کرائے گئے اور یہ جتلانے کی کوشش کی گئی کہ بھارت میںجمہوری عمل ایک ناگزیر سی بات ہے، تو آج ۲۰۱۹ کے بعد جہاں امن و شانتی کے ڈھیرے ہوں، جہاں اب ہڑتالی سیاست کی رسم ہی نابود ہوچکی ہے جہاں اب بجلی اور پانی کے مسائل پر بھی احتجاج کرنے کی عوام میں ہمت نہیں اور نہ وہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ عوام کو یہ ڈر اور خوف کھائے جارہا ہے کہ جائز مطالبات پر بھی احتجاج کو اگر کوئی اور رنگ دیا گیا یا کسی وجہ سے اس کا انداز بدل گیا تو اس کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں ؟سیاسی طور پر ہی نہیں، ۲۰۱۴ میں کشمیر کی لگ بھگ ساری وادی زیر سیلاب آگئی اور یہ ایک ریکارڈ سیلاب تھا جس میں نصف شہر سے زیادہ زیر آب آیا تو سینکڑوں علاقے اور دیہات مہینوں پانی کے اندر ڈوبے رہے لیکن سرکار نے الیکشن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور انتخابات منعقد کئے گئے۔ بہر حال اس وقت حقایق یہی ہیں کہ جموں و کشمیر کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں الیکشن کے اسی طرح منتظر ہیں جس طرح کوئی عاشق مجنون اپنی لیلیٰ کا منتظر ہوسکتا ہے۔ تما م ایسی سیاسی پارٹیاں جس میں روایتی اور پرانی پارٹیوں کے علاوہ کچھ نئی پارٹیاں بھی اپنی قسمت آزمائی کے لئے پر تول ر ہی ہیں ، جن میں سید الطاف بخاری کی ’’اپنی پارٹی‘‘اور جی این آزاد کی ’’آزادڈیمو کرٹک پارٹی ‘‘ بھی ہے ، یہ ساری پرانی اور نئی پارٹیاں انتخابات کے لئے اپنا اپنا نریٹو فروخت کرنے کی کوششیں بہت پہلے ہی سے شروع کرچکی ہیں۔
یوں تو پہلے سبھی پارٹیوں کے نریٹواور بیانئے ۳۷۰ اور سپیشل سٹیٹس جو جموں و کشمیر کو حاصل تھا، کے ارد گرد ہی گھومتے رہتے تھے اور سبھی پارٹیاں ان کی حفاطت اور نگہبانی کے لمبے لمبے دعوے کیا کرتی تھیں، لیکن اب ان تلوں میں کوئی تیل نہیں بچا ہے ،اس لئے سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی صوابدید کے مطابق اپنے بیانئے مارکیٹ میں لارہے ہیں اور کچھ بیانئے “آسمان سے تارے توڑ لانے” کے مترادف بھی ہیں، جیسے الطاف صاحب بلکل ایسا کہہ رہے ہیں کہ میں اقتدار میں آیا تو تین سو یونٹ سے پانچ سو یونٹ تک مفت بجلی فراہم کریں گے، سمجھ ہی سے باہر کا دعویٰ ہے۔ غلام نبی آزاد اور دوسری سیاسی پارٹیاں بھی اس قسم کے تعجب خیز اور حیرت انگیز دعوے ٹھوک رہے ہیں۔ بہر حال انتخابات کی سیاست میں ایسا کرنا اور کہنا کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاسکتی کیونکہ چھوٹے بچے کبھی کبھی چاند کے لئے ہمکنے لگتے ہیں تووالدین شیشے میں چاند دکھا کر ان کی تسلی و تشفی کا سامان پیدا کرتے ہیں اور اگر عوام ابھی سیاسی طور پر لڑکپن سے باہر نہیں آئی ہے تو قصور کس کا ؟
بہر حال ان سب باتوں سے قطع نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تنظیم نو ایکٹ کے تحت شاید تمام تر اختیارات مرکز ہی کے پاس رہتے ہیں لیکن پھر بھی اس پد کے خریداروں کی کوئی کمی نہیں۔ لیکن د وسری طرف ابھی کسی ایسی بات کا انتظار ہے کہ ان انتخابات کے لئے انتظار کرایا جارہا ہے، کس ڈولی کے اٹھنے کا انتظار ہے ؟،، اس پر مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ ظاہر سی بات یہی ہے کہ ابھی سرکارشاید اس ہدف تک نہیں پہنچ پائی ہے جہاں سے انتخابات کے نتائج ان کے اپنے حق میں آنے کا پورا یقین ہوتا۔ یہ سمجھنا شاید عام لوگوں کے لئے مشکل ہو کہ جمہوری انتخابات اب باضابطہ ایک سائنس ہے جس میں بغیر بیلٹ بکس چرائے بھی نتائج الٹ پلٹ کئے جا سکتے ہیں ،،، دیکھئے اب یہ اونٹ بھی کس کروٹ بیٹھتا ہے ؟