شہید کمانڈر “فواد شکر” کے قتل پر صیہونی رجیم کے خلاف ابتدائی ردعمل کے بارے میں لبنان میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کی تقریر جاری ہے۔
المیادین کے حوالے سے بتایا ہے کہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے بیروت میں خطاب کرتے ہوئے صیہونی حکومت کے ہاتھوں سینئر کمانڈر شہید فواد شکر کے قتل کے ردعمل کے پہلے مرحلے کی تفصیلات بیان کیں۔
سید حسن نصر اللہ نے اپنے خطاب کے آغاز میں کہا کہ میں عراق کی حکومت اور اس ملک کے سخاوت مند عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے لاکھوں اربعین زائرین امام حسین علیہ السلام کی بے پناہ مہمان نوازی کے ساتھ انہیں سکیورٹی اور امن و امان فراہم کیا۔
انہوں نے حزب اللہ کی آج کی کاروائی کے بارے میں کہا کہ آج صہیونی دشمن کے خلاف حزب اللہ کے بڑے پیمانے پر ہونے والے آپریشن کو ہم “اربعین آپریشن” نام دیتے ہیں اور ہم اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ لبنان اور مزاحمتی محور کے حالات کو کشیدگی کی اس سطح تک پہنچانے والا فریق اسرائیل ہے۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے واضح کیا کہ اسرائیل اور امریکہ کی دھمکیوں کے بعد فوری ردعمل ظاہر کرنا شاید شکست کے معنی میں ہوتا۔
جواب میں تاخیر کی ایک وجہ وقت اور غور و فکر کی ضرورت تھی کہ آیا ردعمل مزاحمت کے محور سے ہو گا یا تنہا ہو گا۔ ہم نے مذاکرات کے موقع کا انتظار کیا کیونکہ اس محاذ پر ہمارا مقصد اور تمام قربانیاں غزہ میں جنگ کو روکنا ہے۔ بوجوہ انفرادی طور پر جواب دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ ہم نے ردعمل کے لیے رہنما خطوط اور حدود طے کی ہیں کہ “شہریوں” کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہدف فوجی ہو خس کا تعلق فواد شیکر کے قتل سے تھا۔ ہم نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ ہدف صیہونی حکومت کے اندر اور تل ابیب کے قریب ہونا چاہیے۔ ہم نے گیلوٹ بیس کو نشانہ بنایا جو کہ امان ملٹری انٹیلی جنس ڈویژن اور اس سے منسلک 8200 یونٹ سے منسلک مرکزی اڈہ ہے۔
حسن نصر اللہ نے مزید کہا کہ “گیلوت” بیس لبنان کی سرحد سے 110 کلومیٹر اور “تل ابیب” کی سرحد سے 1500 میٹر کے فاصلے پر ہے۔
حزب اللہ نے مقبوضہ الجلیل اور گولان میں فوجی اڈوں کو کاتیوشا میزائلوں سے نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا، جن کی تعداد 300 تک پہنچ گئی۔
“کاتیوشا” میزائلوں کا بنیادی مقصد “آئرن ڈوم” سسٹم کو انگیج رکھ کر ڈرون حملے سے توجہ ہٹانا تھا۔ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے اربعین آپریشن کی تفصیلات کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا: آپریشن کا وقت آج صبح 5:15 پر مقرر کیا گیا تھا۔ آج پہلی بار، ہم نے مشرقی لبنان کے علاقے بقاع سے ایک ڈرون لانچ کیا۔
ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ آپریشن سے پہلے حزب اللہ کے کسی لانچنگ پیڈ کو دشمن نے نشانہ نہیں بنایا۔
آپریشن سے پہلے یا بعد میں حزب اللہ کے ڈرون کے ہینگر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
وادی بقاع سے لانچ کیے گئے تمام ڈرون محفوظ طریقے سے لبنان اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد عبور کر کے مطلوبہ اہداف پر جا لگے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اربعین آپریشن میں جس مخصوص فوجی ہدف کو نشانہ بنایا گیا وہ تل ابیب کے قریب “گلیلوت” میں ملٹری انٹیلی جنس بیس “امان” اور “یونٹ 8200” تھے۔
ہمارے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سے ڈرون ان دو اہداف تک پہنچ چکے ہیں، لیکن دشمن ہمیشہ کی طرح خبروں کو سنسر کرتا ہے۔ لبنان اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر آج صبح جو کچھ ہوا اس کے بارے میں اسرائیل کا بیانیہ جھوٹ سے بھرا ہوا ہے جو اس حکومت کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔
مزاحمت کا شہریوں کو نشانہ بنانا اور قابض حکومت کی جانب سے اس کوشش کو باطل قرار دینا سراسر جھوٹ ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے تاکید کی کہ جو منصوبہ بندی کی گئی تھی وہ ہماری توقع سے بھی زیادہ کامیاب تھی۔ ہمیں 300 میزائل داغنے والے تھے لیکن ہم نے 340 داغے۔
ہمارا اس وقت اسٹریٹجک میزائل استعمال کرنے کا ارادہ نہیں تھا، لیکن ہم مستقبل قریب میں انہیں استعمال کر سکتے ہیں۔ دشمن جن اسٹریٹجک میزائلوں کی بات کر رہا ہے ان میں سے کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچا ہے۔
آج صبح جن علاقوں پر بمباری کی گئی وہ دیگر وادیاں تھیں جنہیں خالی کر دیا گیا تھا یا ان میں کوئی اسٹریٹجک میزائل نہیں تھے۔
قابض “فوج” کے دعوے، کہ انہوں نے حزب اللہ کے ہزاروں راکٹ اور راکٹ لانچر تباہ کر دیے، سراسر جھوٹ ہے۔
نصراللہ نے کہا کہ آپریشن سے پہلے کسی بھی پلیٹ فارم پر حملہ نہیں ہوا البتہ آپریشن کے بعد صرف دو پلیٹ فارمز کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ دشمن کو اربعین آپریشن کے وقت کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی، اور اس کے بعد جو حملے کیے گئے تھے وہ مجاہدین کی طبیعی نقل و حرکت کا نتیجہ تھے۔
دشمن کے کسی حملے میں آپریشن کے علاقے کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ آج جو کچھ ہوا وہ ایک جارحیت تھی نہ کہ احتیاطی اقدام، اور اگر ہم مان لیں تو اس کا آج کے آپریشن پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
یہ دشمن کی انٹیلی جنس صلاحیت کی ناکامی ہے۔ ہمارا آپریشن پلان کے مطابق اور ہر تفصیل کے ساتھ مکمل ہوا۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے کہا:ل کہ تمام تر دھمکیوں کے باوجود کہ لبنان کے اندر سے بعض نے مدد کی، مزاحمت نے اس آپریشن کو انجام دینے کا فیصلہ کیا اور بغیر کسی تاخیر کے اسے انجام دیا۔ ہم ان دو اڈوں، خاص طور پر گلیلوٹ کے بارے میں کامیاب نتیجے کی پیروی کریں گے۔ اگر نتیجہ تسلی بخش ہوا اور مطلوبہ ہدف حاصل کر لیا جاتا ہے، تو ہم جوابی کارروائی کو ختم سمجھیں گے لیکن اگر نتیجہ کافی نہیں رہا، تو ہم کسی اور وقت تک جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
انہوں نے تاکید کی کہ ہمارا آج کا آپریشن مذاکرات میں فلسطینی اور عرب فریقوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے اور اس کا پیغام دشمنوں اور امریکیوں کے لیے واضح ہے۔ امدادی محاذوں کو بند کرنے کی کوئی بھی کوشش مایوس کن ہے اور ہم 11 ماہ قبل شروع کیے گئے کام کو دھمکیوں سے مرعوب ہوئے بغیر مکمل کریں گے۔
ہم وہ لوگ ہیں جو ذلت کو قبول نہیں کرتے اور کسی کے سامنے نہیں جھک سکتے اور ہمارے مظلوموں کا خون تلوار پر جیت جائے گا۔
دشمن کو سمجھنا چاہیے کہ وہ دن ختم ہو گیا جب وہ ایک بینڈ کے ساتھ لبنان پر حملہ کرتا تھا تاہم وہ دن بھی آ سکتا ہے جب ہم اسرائیل پر ایک بینڈ کے ساتھ حملہ کر یں۔
(مہر خبر)