تزکیہ نفس کا مفہوم
توصیف احمد وانی ڈائریکٹر سعید حسن منطقی اکیڈمی اونتی پورہ پلوامہ کشمیر انڈیا
انسانی نفس کا تزکیہ و تصفیہ اور تہذیب و ارائش کا بنیادی ماخذ قران و سنت ہے ۔
لیکن مرور زمانہ اور مادیت پرستی کے عام ہو جانے کی وجہ سے انسانی احوال و ظروف میں تغیر واقع ہو گیا اور انسان اپنے نفس کو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جھکانے کی بجاۓ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے رو گردانی کرنے لگا ۔
انسانی نفس کی اصلاح اللہ کے قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ہی سے ممکن ہے ۔
قران اور حدیث نبوی نے جو نظریہ احوال انسان کی اصلاح کا اسلام نے دیا ہے وہ کوئی اور مذہب نہیں دیتا۔
دل کو اعمال خسیہ سے پاک صاف کرنے اور نفسیانی خواہشات پر قابو پانے کا نام تزکیہ نفس ہے۔
کیونکہ پاک دل اللہ کی بارگاہ میں مقبول و منظور ہوگا ،اور تزکیہ نفس کا فائدہ یہ ہوگا کہ انسان اللہ کی بارگاہ کے قریب ہو جائے گا۔
تزکیہ نفس اور تہذیب اخلاق کا سر چشمہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں ان عیوب سے بچنے کی بھی تاکید فرمائی ہے جو نفس کو اتنا کثیف کر دیتے ہیں کہ پھر مسلمان نہ تو دین کی پابندی کر سکتا ہے۔ اور نہ ہی اسلامی معاشرہ کا ایک فرد کھلا سکتا ہے۔
شریعت اسلامیہ میں تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو ان ممنوع ،معیوب اور مکروہ امور سے پاک صاف رکھے جنہیں قران و سنت میں ممنوع، معیوب اور مکروہ کہاں گیا ہے۔
گویا نفس کو گناہ اور عیب دار کاموں کی الودگی سے پاک صاف کر لینا اور اسے قران و سنت کی روشنی میں محمود و محبوب اور خوبصورت خیالات و امور سے اراستہ رکھنا نفس کا تذکیہ ہے۔ اللہ تعالی نے انبیاء کرام کو جن اہم امور کے لیے مبعوث فرمایا ان میں سے ایک تزکیہ نفس بھی ہے ۔
دین کا بنیادی مقصد نفس کا تزکیہ کرنا ہے۔
تزکیہ نفس کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے لیکن اج اس کی اشد ضرورت ہے اس لیے کہ جو لوگ علم سے کورے ہیں وہ اس اصطلاح کو نیا اور بے معنی سمجھتی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔
تزکیہ نفس کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کے حصول میں کوشاں ہو اور انہیں اپنائے جن سے شخصیت پاکیزہ ہو جائے اور اس کا شمار قابل تحسین انسانوں میں سے ہو۔ جس طرح عمدہ لباس پہن لینے سے کوئی بھی خوبصورت نہیں ہو جاتا اسی طرح نفس کی پاکی کے بغیر ظاہری اطوار و اعمال اگر اچھے ہو تو وہ انسان پاک باز اور اچھا نہیں ہو سکے گا۔
ابوبکر بن عربی کہتے ہیں کہ جب انسان کو نفس کی پاکیزگی اور تزکیہ قلب کا حصول ہو جاتا ہے تو وہ دنیاوی تعلقات اور مال و جاہ سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور کلی طور پر اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے لیے تیار رہتا ہے ۔پھر اس پر دلوں کے اسرار کھول دیے جاتے ہیں اور وہ ملائکہ کو دیکھتا ہے اور ان کی اواز کو سنتا ہے اور انبیاء کی ارواح اور ملائکہ سے ملاقات کرتا ہے اور ان کی اواز کو سنتا ہے۔
امام غزالی رحمت اللہ علیہ تزکیہ نفس اور دل کی پاکیزگی کے حوالے سے بطور ماہر تصور کیے جاتے ہیں اپ نے اپنی کتاب( احیاء علوم الدین) میں اس موضوع کے متعلق لکھنے کے اسباب بیان کرتے ہوئے کہاں ہے کہ،، میں نے اپنے اندر امراض قلب کی شکایت کی اور میں نے اس کے اطباء کا جب فقدان پایا تو میں نے نفس اور قلب کے تزکیہ کے لیے خود محنت کی اور اس کا حل تلاش کیا۔
امام غزالی نے جہاں پر دیگر علوم پر سیر حاصل بحث کی ہیں وہی پر اپ نے تزکیہ نفس اور طہارت قلب کے متعلق شرح وبسط کے ساتھ لکھا ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ تزکیہ نفس کے متعلق ضروری علم حاصل کرے اور اسے معلوم ہونا چاہیے کہ تزکیہ نفس اور امراض قلب سے چھٹکارا کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
دل کے مرض میں مبتلا لوگوں کی دوا صرف صوفیاء کے در پر ملتی ہے۔ خواہ کوئی رفع یدین کرنے والا ہو، یا امین بالجہر کہنے والا، صوفی کو اس سے کوئی غرض نہیں یہ تو فقہاء کا معاملہ ہے ،جس مذہب کی چاہے تقلید کرو ان کے پاس تو دل کی اصلاح کے لیے اؤ، شفا پاؤ گے۔
یہ صرف ائمہ مذہب و فقہاء کا مسئلہ ہے کہ جس کی تقلید کرو وہی چلو ،صوفیاء ظاہر کو نہیں باطن کو دیکھتے ہیں۔
نفس، قلب بگڑ جائے یا روح کا تعلق اگر ملاء اعلی سے کٹ جائے تو اس کا تعلق اپنے وطن سے جوڑنے کے لیے صوفیوں کے در پر جاؤ۔۔ منکرین تصوف (حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی) (داتا گنج بخش علی ہجویری) (شیخ شہاب الدین سہروردی)( شیخ بہاؤدین نقشبند) (بابا فرید الدین گنج شکر) (حضرت مجدد الف ثانی )(خواجہ معین الدین چستی اجمیری) (حضرت قطب الدین بختار کاکی) (امیر کبیر میر سید علی ھمدانی) (حضرت (شیخ العالم شیخ نوردین نورانی) (حضرت سلطان العارفین شیخ حمزہ مخدوم محبوبی کشمیری)( حضرت بابا داؤد خاکی)( حضرت بابا داؤد مشکاتی) (حضرت سعید علی عالی بلخی) اور ان جیسے دیگر اولیاء و صوفیہ کی روحانی عظمتوں کا کیسے انکار کر سکتے ہیں۔
دل کو سنوارنے کے لیے اہل حال یعنی صوفیاء کے دامن سے وابستہ ہونا ضروری ہے۔
(خلاصہ بحث)
1۔۔ اسلام جہاں پر زندگی کی ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے وہیں پر تزکیہ نفس اور تصفیہ کے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے تاکہ بندہ صحیح معنوں میں جسمانی پاکیزگی کے ساتھ روحانی پاکیزگی بھی حاصل کر لے۔
2 ۔۔ تزکیہ نفس کے ذریعے انسان کے اعمال اللہ تعالی کی بارگاہ میں شرف قبولیت پاتے ہیں۔
3۔۔۔ امام غزالی نے اپنی کتب میں تزکیہ نفس اور طہارت قلب کے متعلق مراح و مدارج بیان کیے ہیں جن کو اختیار کرنے سے انسان صحیح معنوں میں اخلاقی اور فکری زندگی گزار سکتا ہے۔۔
4۔۔ امام غزالی نے اپنے صوفیانہ منہج کے ساتھ ان امراض کا ذکر کیا ہے جو انسان کی روحانی ترقی میں آر بنتے ہیں۔