علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ و سابق طلبہ نے پہلی مرتبہ یونیورسٹی میں عزائے فاطمی کا انعقاد کیا۔ یہ بابرکت مجلس 3 دسمبر 2024 کو بیت الصلوۃ میں منعقد ہوئی، جسے معزز عالم دین مولانا سید حسنین باقری لکھنؤ نے خطاب کیا۔
مجلس کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا، جو کہ یونیورسٹی کی روایت کے مطابق ہر پروگرام میں شامل ہوتی ہے۔ یہ تلاوت قاری محمد اختر، طالب علم بی اے (شیعہ تھیالوجی) نے کی۔ اس کے بعد جناب دانش زیدی صاحب نے پرسوز انداز میں سوز خوانی کی، جس نے مجلس کے ماحول کو غمگین بنا دیا۔
سوز خوانی کے بعد رضا حیدر زیدی، طالب علم ایل ایل ایم (قانون)، نے بی بی فاطمہؑ کی شہادت کی مناسبت سے پرسوز کلام پیش کیا۔ ان کے بعد محمد اختر نے سوز بھرے انداز میں سلام پڑھا، جس سے مجلس کا ماحول مزید مغموم ہوگیا۔
مولانا سید حسنین باقری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بی بی فاطمہؑ ہر زمانے کے لیے نمونۂ عمل ہیں۔ آپؑ نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا اور باطل کو پہچنوایا۔ مولانا نے بی بی زہرا کے فضائل بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنی زندگی میں ایسے اعمال انجام دینے چاہئیں جو رضائے الٰہی کے لیے ہوں، نہ کہ دنیاوی مفادات کے لیے۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ اسلام ہمیں ظلم کرنے یا برداشت کرنے کی اجازت نہیں دیتا، بلکہ امن کا پیغام دیتا ہے۔ مولانا نے دین کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی حالت میں دین کو چھوڑا نہیں جا سکتا، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔
مولانا نے بی بی فاطمہؑ کی زندگی سے سبق لیتے ہوئے حق کی حمایت میں قربانی دینے کی تلقین کی اور کہا کہ ہمیں ہمیشہ حق کا ساتھ دینا چاہیے۔
خطاب کے بعد مولانا نے بی بی فاطمہؑ کے مصائب بیان کیے، جن میں بی بی کا دربار جانا، دروازے کا گرنا، اور مولا علیؑ کا صبر شامل ہیں۔ مولانا نے مزید کہا کہ بی بی زہراؑ کی پسلیاں توڑی گئیں، ان کے شوہر کے گلے میں رسی ڈالی گئی، اور بی بی کو دروازے اور دیوار کے درمیان کچل دیا گیا۔ جناب محسنؑ شہید ہوگئے اور بی بی زہراؑ اس صدمے کے بعد کبھی مسکرائیں نہیں۔ امام علیؑ نے بی بی زہراؑ کی آخری رسومات رات کی تاریکی میں انجام دیں تاکہ دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ یہ تمام واقعات دلوں کو غم سے بھر دینے والے ہیں۔
آخر میں راونق عباس نے نوحہ خوانی کی، جس کے بعد تمام عزاداروں نے مل کر پرسوز ماتم کیا۔ یہ مجلس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پہلی بار منعقد ہوئی اور امید ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔