تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
شریکہ رسالت، محافظہ ولایت، مادر امامت، صدیقہ طاہره حضرت فاطمہ زہراء سلام الله علیہا کی مظلومیت و شہادت تاریخ انسانیت کا ایک ایسا سیاہ باب ہے، جس پر آج بھی چند ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات آج تک نہ مل سکے۔
حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ کی اکلوتی یادگار بیٹی کیوں اپنے ہی شہر مدینہ منورہ میں اجنبی ہو گئیں؟
18 برس کے سن میں کیوں عصا بردار ہو گئیں؟
آخر وہ کون سی مصیبت تھی کہ آپ نے مرثیہ پڑھا “صبت علی مصائب لو انھا۔ صبت علی الایام صرنا لیالیا”؟
آخر ایسا کون سا جرم تھا کہ اس بچے کو بھی شہید کر دیا گیا جو ابھی اس دنیا میں آیا بھی نہیں تھا، بطن مادر میں تھا؟
آخر کیوں بنت رسول س۔ کو شب کے سناٹے میں دفن کیا گیا؟
کیوں آج تک قبر سیدہ اللہ علیہا پوشیدہ اور ایک راز الہی ہے؟
کچھ نے کہا کہ شہادت زہرا سلام اللہ علیہا شیعوں کا بغض صحابہ میں گڑھا افسانہ ہے۔ میں بھی کہتا ہوں کہ ائے کاش یہ افسانہ ہی ہوتا حقیقت نہ ہوتی۔
لیکن کیا کیا جائے کہ جب شیعوں کے علاوہ اہلسنت کے جید علماء مسعودی و طبری و ابن ابی الحدید معتزلی وغیرہ نے اس مظلومیت و شھادت کو واضح طور سے بیان کیا۔
مسلمانوں نے خود اپنے کانوں سے متعدد بار پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے سنا تھا۔ “فاطمه میرا ٹکڑا ہے جسنے اسے اذیت دی گویا اس نے مجھے اذیت دی” یا لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ نزول آیت تطہیر کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 6 ماہ تک مسلسل در زہرا سلام اللہ علیہا پر آ کے فرماتے “السلام علیکم یا اھل بیت النبوہ” اسی طرح روز مباہلہ خواتین میں صرف حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو لے گئے اور بتا دیا کہ اگر کوئی اللہ و رسول کے نزدیک سب سے سچی عورت ہے تو وہ یہی ہیں، اور جب آیت نازل ہوئی کہ “ائے صاحبان ایمان نبی کے گھر میں بغیر اجازت داخل نہ ہو” تو اس وقت حاکم اول نے بیت زہرا سلام اللہ علیہا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! کیا نبی کے گھروں میں یہ گھر بھی شامل ہے تو مصداق “وما ینطق” نے فرمایا بلکہ یہ گھر ان گھروں سے افضل ہے۔ یعنی حکم خدا کے مطابق بیت فاطمه سلام الله علیها میں بدرجہ اولی بغیر اجازت داخلہ ممنوع ہے۔
دشمن، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابتر یعنی لا ولد کہتے تھے تو خدا نے سورہ کوثر نازل فرما کر دشمنوں کو ساکت کر دیا۔ تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ “کوثر” سے مراد حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں اور خود حضور نے فرمایا کہ میری نسل فاطمہ (سلام اللہ علیہا) سے چلے گی۔ اور یہ اللہ کا خاص لطف رہا کہ دشمنوں کی تمام سازشوں کے باوجود نسل رسول میں وہ برکت عطا فرمائی کہ آج بھی کائنات کے مختلف گوش و کنار میں اولاد رسول ص۔ پائے جاتے ہیں۔
جب لوگوں نے حضور ص۔ کو آپ کی زحمات کا اجر دینا چاہا تو مرضی الہی کے پابند رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ آیت نازل ہوئی کہ “قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودہ فی القرباء”
لیکن افسوس صد افسوس احسان مند و غیرتمند نام نہاد مسلمانوں نے کیا خوب اجر دیا کہ جس سے تاریخ کا دامن سیاہ ہو گیا۔ ابھی اس رسول کہ جس کے سبب ان کو ھدایت، شرف و عزت نصیب ہوئی تھی انکی وفات کو چند لمحے نہیں گزرے کہ مسلمان رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جنازے کو چھوڑ کر خلافت کی تک و دو میں لگ گئے۔
اہل دنیا کار دنیا ساختند
مصطفی را بی کفن انداختند
نمک حلال چاہنے والے اپنے بزرگان کی نمک حرامی پہ احساس امت کا غلاف چڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ چونکہ حضور ص۔ نے اپنے بعد کے لئے کسی کو اپنا جانشین معین نہیں فرمایا اس لئے یہ نام نہاد دردمندان امت انتخاب خلافت کے لئے سقیفہ چلے گئے۔
عجیب واقعا کتنا عجیب ہے کہ امیر شام کو اپنے بعد امت کا اس قدر خیال و احساس تھا کہ جب اسے کوئی نہ ملا تو اپنے جملہ خباثتوں کے مجموعے بیٹے یزید کو امت پہ تھوپ کر اس دنیا سے چلا گیا لیکن جس رسول نے 23 برس تک اتنی زحمتیں اٹھائیں انھیں اصلا اپنے بعد کے لئے اپنی امت کا کوئی خیال ہی نہیں رہا۔ جب کہ حقیقت اس کے برخلاف ہے کہ اگر حضور کبھی کسی مختصر مدت کے سفر پہ مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تو اس مختصر مدت کے لئے بھی اپنا جانشین معین فرماتے تھے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے بعد کے لئے کسی کو معین نہ فرمایا ہو۔
نہ صرف اسی پہ اکتفا ہوئی بلکہ جس علی علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم خدا سے غدیر خم میں اپنا خلیفہ و جانشین معین کر کے لوگوں کو انکی بیعت کا حکم دیا تھا اور سب نے غدیر میں بیعت بھی کی تھی اسی مولی کی بیعت توڑ کر خود خلیفہ بن بیٹھے اور مولی ہی سے اپنی بیعت کا مطالبہ کر دیا۔ اور اس مطالبہ بیعت کو پائے تکمیل تک پہنچانے میں تمام حدوں کو پار کر دیا یہاں تک بیوت انبیاء سے افضل بیت پہ آگ و لکڑی سے حملہ کیا جس کے نتیجہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اکلوتی یادگار بیٹی کو وہ زخم لگا کہ بطن مبارک میں محسن مظلوم کی شہادت ہوگئی اور یہی زخم آپ کی بھی شہادت کا سبب بن گیا۔
یہ صرف ایک بچے کا قتل و شہادت نہیں بلکہ ایک تہائی نسل رسول کا قتل تھا۔
اسی زخم نے 18 برس میں ہی بنت رسول کو عصابردار بنا دیا۔
یہی ایسی مصیبت تھی کہ بی بی نے مرثیہ پڑھا “صبت علی مصائب لو انھا۔ صبت علی الایام صرنا لیالیا”۔
بقول علامہ امینی رحمۃ اللہ علیہ آج بھی مدینہ کے در و دیوار سے “صبت علی مصائب ۔۔۔۔۔” کی صدا محسوس ہوتی۔
لیکن آخر کیوں فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیھا) کو شہید کیا؟۔
بای ذنب قتلت؟
جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی مالک بن نویرہ باوبود اس کے کہ مالک کو اللہ کے رسول نے جنتی بتایا تھا لیکن ان کے قاتل کو خلیفہ نے یہ کہہ کر معاف کر دیا کہ سیف رسول ہیں۔ گناہان کبیرہ کے مرتکب نام نہاد و جعلی سیف رسول کو معاف کر دیا تو آخر کیوں معصومہ، بضعۃ الرسول کو شہید کیا؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حاتم طائی کی مشرکہ بیٹی کو اسکے باپ کی کرامت و سخاوت کے سبب نہ صرف معاف فرمایا بلکہ انعام و اکرام سے نوازا تو کیوں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مومنہ و معصومہ بیٹی کو شہید کیا؟ انعام و اکرام تو دور خود انہیں کے باغ فدک کو ہڑپ کر لیا؟
شہادت زہرا سلام اللہ علیھا ہی مذہب حق کی حقانیت کی دلیل ہے۔
شہادت زہرا سلام اللہ علیھا ہی تشیع کی محافظ ہے۔
بارگاہ معبود میں دعا ہے فرزند زہرا سلام اللہ علیہا امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور میں تعجیل فرما۔
آمین یا رب العالمین بحق آل طہ و یس