0

بنی نوع انسان کی خیر خواہی اور مہربانی انبیاء اور اولیائے الہی کی پہچان

حجت الاسلام عیسی زادہ نے سیرت البنی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انسانوں کی خیر خواہی انبیاء اور اولیائے الہی کی پہچان ہے۔

دینی ڈیسک؛ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دل وجان سے لوگوں کی ہدایت کے طالب تھے۔ قرآن مجید نے زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کے لئے نمونہ پیش کیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انفرادی خصوصیت یہ ہے آپ کی ذات ہر حوالے سے رہتی دنیا تک انسانوں کے لئے اسوہ عمل ہے چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے ولکم فی رسول اللّه اسوةٌ حسنة لمن کان یرجوا اللّه و الیوم الآخر۔ یقینا تمہارے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اسوہ ہے جو اللہ سے امید رکھتے ہیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں کچھ مخصوص خصوصیات تھیں جن کی وجہ سے آپ نمونہ عمل قرار پائے۔

اسلامک کلچرل اینڈ ایجوکیشنل ریسرچ سینٹر کے رکن حجت الاسلام عیسی عیسی زادہ نے مہر نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کی آیت میں رسول گرامی اسلام کی پانچ خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔ لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیزٌ عَلَیهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیکُم بِالْمُؤْمِنِینَ رَءُوفٌ رَّحِیم یقینا تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق اور مہربان ہے

1۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانوں میں سے ہی تھے۔ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ کا مطلب ہے کہ تمہارے درمیان میں سے مبعوث ہوئے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں سے زیادہ رابطے میں رہتے تھے۔

2۔ مومنین پر آنے والی مشکلات اور سختیوں سے آنحضرت ص محزون ہوتے تھے۔ عَزِیزٌ عَلَیهِ مَا عَنِتُّمْ یعنی مومنین کے حالات پیغمبر اکرم ص بے توجہی نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے اصحاب اور پیروکاروں کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات سے آگاہ رہتے تھے اور کسی پر مشکل آنے پر آپ ص بھی غمگین ہوتے تھے۔

3۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کی ہدایت کی ہمیشہ آرزو کرتے تھے اور آپ کو حرص کی حد تک اس کی خواہش ہوتی تھی۔ حَرِیصٌ عَلَیکُم۔ حرص کا مطلب کسی بھی چیز سے شدید محبت ہے۔ اس آیت میں حرص کو مطلق رکھا گیا ہے لیکن مومنین کی ہر طرح کی بھلائی آپ کی شدید خواہش تھی۔

4، 5۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مومنین کے ساتھ رحم اور مہربانی سے پیش آتے تھے۔ بِالْمُؤْمِنِینَ رَءُوفٌ رَّحِیم رؤوف آنحضرت ص کو اپنے فرمان بردار مومنین سے محبت تھی جبکہ رحیم اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ گناہ گاروں پر بھی رحم کرتے تھے۔ یہ دو کلمات جب جدا ذکر ہوجائیں تو ایک ہی معنی دیتے ہیں اور جب ساتھ ذکر ہوجائیں تو الگ الگ معنی دیتے ہیں۔

6۔ اللہ تعالی نے اس آیت میں پیغمبر اکرم ص کا ایک رہبر کی حیثیت سے تعارف کرایا ہے جس سے یہ نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ انسانوں کے ساتھ ہمدردی، سعادت طلبی، مہربانی اور رحم و کرم انبیاء اور اولیائے الہی کی پہچان ہے۔

ایک مرتبہ ایک اعرابی رسول اکرم ص کی خدمت میں آیا اور آپ سے مدد طلب کی۔ آنحضرت ص نے اس کی مدد کی اور فرمایا: کیا میں نے تیرے ساتھ نیکی کی؟ اس نے کہا: کوئی نیکی نہیں کی اور کوئی شائستہ سلوک نہیں کیا۔ اعرابی کی بات سے اصحاب کو غصہ آیا اور اس کو ادب سکھانا چاہا۔ آنحضرت ص نے منع کیا اور فرمایا: میں اس کو سمجھاتا ہوں۔

آپ اعرابی کے پاس آئے اور اس کو مزید مال دیا اور فرمایا: کیا میں نے تیرے ساتھ نیکی کی؟ اعرابی نے کہا: ہاں اللہ آپ کو جزا دے۔

پیغمبر اکرم ص نے فرمایا: تم نے میرے اصحاب کو ناراض کردیا ہے۔ یہی بات میرے اصحاب کے سامنے دہرا سکتے ہو تاکہ ان کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے۔ اعرابی نے اصحاب کے سامنے یہی بات دہرائی تو آنحضرت ص نے فرمایا: اس اعرابی اور میری مثال اس اونٹ اور اس کے مالک کی ہے جو اپنے مالک سے دور بھاگ جاتا ہے۔ لوگ اس اونٹ کا پیچھا کرتے ہیں لیکن اونٹ مزید فرار کرتا ہے۔ اس کا مالک کہتا ہے کہ اونٹ کو چھوڑ دیں کیونکہ وہ مجھ سے مانوس ہے اور میں ہی اس کو رام کرسکتا ہوں۔ اس کے بعد مالک آرام سے اونٹ کے نزدیک جاتا ہے اور اس کو قابو میں لیتا ہے۔ یہ اعرابی بھی اس اونٹ کی طرح ہے۔ اگر میں اس اعرابی کو تمہارے حوالے کر کے چھوڑ دیتا تو تم اس کو کفر کردیتے اور کفر کی موت مرتا لیکن میں نے اس کو رام کیا اور نجات دی۔

(​​​​​​مہر خبر)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں