بعض صہیونی ذرائع ابلاغ اور ماہرین نے مزاحمتی فورسز کے “گولانی بریگیڈ” کے ہیڈ کوارٹر پر ڈرون حملے کو اس رجیم کے لئے “بلیک سنڈے” قرار دیا۔
بین الاقوامی ڈیسک: لبنان کی حزب اللہ نے حالیہ دنوں میں اہم اور اسٹریٹجک اہداف بیان کرتے ہوئے بیت المقدس پر قابض صیہونی رجیم کے ساتھ جنگ کے ایک نئے دور کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ مقبوضہ فلسطین کے سرحدی علاقوب میں زمینی لڑائی میں شدت آنے کے ساتھ ہی حزب اللہ کے ڈرون اور میزائل یونٹوں نے مقبوضہ فلسطین کے بڑے شہروں جیسے حیفہ، ایکر اور تل ابیب کو نشانہ بنایا۔
اس کے علاوہ 11 اکتوبر کو، لبنانی مزاحمت نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جنگی محاذ کے رہائشی علاقوں کے غلط استعمال اور ان علاقوں میں موجود خطرات سے نمٹنے کی ضرورت کے بارے میں عبرانی میں ایک بیان جاری کیا۔
حیفہ میں گولانی بریگیڈ کے اڈے پر ڈرون حملہ اور بڑی تعداد میں صہیونیوں کی ہلاکت اور زخمی ہونے کو قابض دشمن کے خلاف طویل جنگ کا پہلا قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔
سینئر اسرائیلی حکام کے مطابق حزب اللہ ایک “گوریلا” تنظیم سے ایک کلاسیکی فوج کے مرحلے میں پہنچ چکی ہے۔ کمانڈ یونٹس کی تیزی سے تعمیر نو اور میدان جنگ میں حزب اللہ کی افواج کی موثر کارکردگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مزاحمتی قوت اپنی اندرونی صلاحیتوں کو بحال کرنے اور کمانڈ کی ہدایات کی بنیاد پر متناسب ضرب لگانے کے لیے تیار ہے۔
اس تجزیاتی نوٹ میں، ہم حزب اللہ کے کل رات کے ڈرون آپریشن کی مختلف جہتوں پر توجہ دینے کی کوشش کریں گے۔
مقبوضہ فلسطین کے قلب میں ڈرون آپریشن
13 اکتوبر بروز اتوار شام کو، حزب اللہ نے حیفہ کے علاقے بنیامینا میں گولانی بریگیڈ کے ڈائننگ ہال پر حملہ کرنے کے لیے ایک غیر معمولی آپریشن میں کامیابی حاصل کی جس میں پہلے ہدہد ڈرون کے ذریعے علاقے کی جاسوسی کی اور پھر ابابیل کلاس کے خودکش ڈرون کا استعمال کیا گیا۔
“دی ٹائمز آف اسرائیل” کے مطابق اس حملے کے دوران کم از کم 4 صہیونی ہلاک اور 7 شدید زخمی ہوئے۔
اس کے علاوہ مذکورہ ڈرون کے ٹکرانے سے اسرائیلی فوج کے مزید 58 فوجی زخمی بھی ہوئے۔
اس حملے کے بعد تل ابیب نے صہیونیوں سے کہا کہ وہ ہسپتالوں میں جا کر خون کا عطیہ دیں۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہاگری نے حزب اللہ کے ڈرونز کی آمد سے قبل وارننگ سائرن کی ناکامی کے حوالے سے تحقیقات کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے صہیونی آبادکاروں سے کہا کہ وہ فوجی تحقیقات کے خاتمے تک سوشل میڈیا میں کسی قسم کی غلط خبریں اور افواہیں پھیلانے سے گریز کریں۔
مرصاد ڈرون؛گولانی بریگیڈ کے جوانوں کا قاتل
“یروشلم پوسٹ” کی رپورٹ کے مطابق ابتدائی تحقیقات کی بنیاد پر حزب اللہ کی جانب سے لانچ کیے گئے دو ڈرون سمندر سے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں داخل ہوئے۔ دونوں ڈرون “مرصاد” ماڈل کے تھے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اس ڈرون حملے کے دوران صیہونی حکومت کے دفاعی نظام اور جاسوسی ڈرون حزب اللہ کی طرف سے داغے گئے ڈرون میں سے ایک کا بھی پتہ نہیں لگا سکے۔
عسکری امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ مذکورہ ڈرون کی اونچائی کم ہونے کی وجہ سے ریڈار کے ذریعے اس کی مسلسل شناخت ممکن نہیں تھی۔
گولانی بریگیڈ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
“گولانی” یا “جولانی” بریگیڈ شام کی گولان کی پہاڑیوں سے لیا گیا ایک نام ہے۔ اس بریگیڈ کے قیام کی تاریخ فروری 1948 تک جاتی ہے، جب ڈیوڈ بین گورین وزیراعظم تھے۔ پہلے تو یہ بریگیڈ “لیوانونی” بریگیڈ کا حصہ تھی لیکن بعد میں اسے اس سے الگ کر دیا گیا۔
جولانی بریگیڈ اسرائیلی فوج کی 31ویں ڈویژن کا حصہ ہے۔ یہ بریگیڈ “گیڈون”، “براق”، “ہیبوکیم ہراشون” اور “شینسائی” بٹالین پر مشتمل ہے۔
اس فوجی یونٹ کو صہیونی فوج میں شمولیت کی طویل تاریخ کی وجہ سے “TP1” بھی کہا جاتا ہے۔
پہلے تو اس بریگیڈ کا مشن شام اور مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں میں موجود ہونا تھا لیکن غزہ اور لبنان میں جنگوں کے آغاز کے ساتھ ہی اس کے مشن کا دائرہ تیزی سے پھیل گیا۔
حزب اللہ کی جنگی طاقت کی تعمیر نو
پیجرز آپریشن اور حزب اللہ کے زمینی، میزائل اور ڈرون لڑاکا یونٹوں کے کمانڈ اسٹاف کے قتل کے بعد، عبرانی ذرائع اور بعض مغربی تھنک ٹینکس نے حزب اللہ کے خلاف صیہونی رجیم کی عظیم فتح اور اس کی آپریشنل صلاحیت میں خلل کے بارے میں بات کی۔
اگرچہ شہید فواد شیلکر، ابراہیم عقیل، علی کرکی وغیرہ کی موجودگی نے میدان میں ہونے والی جنگی پیشرفت پر خاصا اثر ڈالا لیکن حالیہ دنوں کی پیشرفت نے ظاہر کیا ہے کہ نیا اور متبادل کمانڈ اپنے شہید ساتھیوں کی جگہ بہت جلد قابض رجیم کے مفادات کے لیے ایک اہم خطرہ بن کر سامنے آنے لگا ہے۔
امریکی روزنامہ “نیویارک ٹائمز” کے مطابق بیروت میں حزب اللہ کے کمانڈ سینٹر پر حملے اور مزاحمت کے اعلیٰ کمانڈروں کی شہادت کے صرف 72 گھنٹے بعد ایک نیا کمانڈ سینٹر قائم کیا گیا اور فیصلہ سازوں کو اس جگہ منتقل کر دیا گیا۔
بلاشبہ مزاحمتی حملوں میں شدت اور اسرائیلی فوج کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ نیتن یاہو اور ان کے دائیں بازو کے اتحادیوں کے لیے جنگ کے تسلسل کو مشکل اور پیچیدہ بنا دے گا۔
اسرائیلی فوج کی ہلاکتوں اور زخمیوں سے متعلق تصاویر کی سخت سنسر شپ
نتیجہ کلام
صیہونی چینل 12 کی طرف سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 13 اکتوبر کو مجاہدین کی مزاحمتی کارروائیوں میں کم از کم 110 صیہونی ہلاک یا زخمی ہوئے۔ ان خوف ناک اعداد و شمار کے پیش نظر بعض عبرانی ماہرین نے اس دن کے واقعات کو بیان کرنے کے لئے “بلیک سنڈے” کی اصطلاح استعمال کیا۔
دوسری طرف جہاں لبنان کی قانونی حکومت سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کے نفاذ کے بارے میں علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ بات کرنے لگی ہے، وہاں تل ابیب نے شمالی مقبوضہ فلسطین میں امن بحال کرنے کے بہانے جنوبی لبنان پر زمینی حملہ شروع کر دیا ہے۔
اس وسیع جارحیت کے دوران نہ صرف سرحدی دیہات تباہ ہو رہے ہیں بلکہ صہیونی اقوام متحدہ کی افواج کو بھی براہ راست نشانہ بنا رہے ہیں۔اس صورتحال میں حزب اللہ کے مجاہدین روزانہ کی بنیاد پر جنوبی لبنان کے مختلف علاقوں میں اسرائیلی دراندازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور وہ بیرونی جارحوں کی پیش قدمی کو روکنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہمیں انتظار کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ کیا حزب اللہ کے پے در پے حملوں سے گھائل تل ابیب، لبنان کی سرحدوں سے پیچھے ہٹنے اور غزہ اور لبنان میں جنگ بندی کے اعلان پر مجبور ہوجائے گا یا نہیں؟