1185795 45

باب الحوائج امام موسی کاظم علیہ السلام کی اخلاقی زندگی پر ایک نظر

باب الحوائج امام موسی کاظم علیہ السلام کی اخلاقی زندگی پر ایک نظر

تحریر: ڈاکٹر فرمان علی سعیدی شگری

امام علیہ السلام کے حلم کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ آپ کے اسم مبارک کے ساتھ”کاظم” کا لقب آپ کے اسی وصف کی ترجمانی کرتا ہے۔

تحریر: ڈاکٹر فرمان علی سعیدی شگری

امام علیہ السلام کے حلم کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ آپ کے اسم مبارک کے ساتھ”کاظم” کا لقب آپ کے اسی وصف کی ترجمانی کرتا ہے۔

امام علیہ السلام کا اسم گرامی: موسی۔

لقب: کاظم اور عبد صالح۔

کنیت: ابو الحسن اور ابو ابراہیم۔

پدر بزرگوار: امام جعفر صادق علیہ السلام

مادر گرامی: ہام حمیدہ، مصفاہ۔

تاریخ ولادت: سات صفر 128ہجری، قریۂ ابوا‏‏ء جو مکہ اور مدینہ درمیان واقع ہے۔

تاریخ شہادت: 25رجب سال 183ہجری، بغداد کے زندان میں۔

بابرکت عمر کی مدت:55سال۔

امامت کی مدت: 35سال۔

محل دفن: قبرستان قریش(کاظمین) بغداد۔ اعلام الوری و بحار الانوار،ج48،ص1)

امام کاظم علیہ السلام کے مکارم اخلاق اور عبادت:

امام علیہ السلام کے حلم کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ آپ کے اسم مبارک کے ساتھ”کاظم” کا لقب آپ کے اسی وصف کی ترجمانی کرتا ہے۔ آپ ہمیشہ غصہ پی جایا کرتے تھے۔ محمد بن طلحۂ شافعی امام علیہ السلام کے بارے میں کہتا ہے: امام موسی کاظم علیہ السلام جلیل القدر، بڑا شان والا، شب زندہ دار،عبادات میں مشہور، اطاعت پر پایبند اور کرامات میں معروف تھے۔ دن میں روزہ رکھتے تھے اور رات کو نماز میں مشغول رکھتے تھے۔ آپ زیادہ صدقہ دیا کرتے تھے اور مجرموں اور آپ پر ظلم کرنے والوں کوبخشنے کی وجہ سے آپ کو کاظم لقب ملا۔ جب کوئی آپ پر برائی کرتے،آپ اس کے بدلے اس پر احسان اور نیکی کرتے۔ جو بھی آپ پر ظلم کرتا، آپ اس کو معاف کر تے۔ کثرت عبادت کی وجہ سے آپ کو عبد صالح کا لقب مل گیا۔ لوگوں کے درمیان باب الحوائج الی اللہ کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ کی بارگاہ میں توسل کرنے سے مشکلات حل ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالی کے ہاں آپ کا بہت بڑا مقام و منزلت ہے۔(منتہی الآمال،باب والادت امام موسی کاظم علیہ السلام)

امام کاظم علیہ السلام راتوں کو عبادت اور خدا سے راز و نیاز میں گذارتے تھے اور آپ کے سجدے بہت طولانی ہوتے تھے اور ان سجدوں میں یہ دعا اکثر پڑھا کرتے تھے: “اَللّهُمَّ إِنّى أَسْأَلُكَ الرّاحَةَ عِنْدَ الْمَوْتِ وَ الْعَفْوَ عِنْدَ الْحِسابِ” خدایا! میں وقت مرگ اور موت راحت و آرام اور حساب و کتاب کے موقع پر درگذر کا خواہاں ہوں۔(ارشاد، شیخ مفید،ص227) “عَظُمَ الذَّنْبُ مِنْ عَبْدِكَ فَلْيَحْسُنِ الْعَفْوُ مِنْ عِنْدِكَ”۔ تیرے بندے کا گناہ بہت زیادہ ہے، پس تیرے عفو و بخشش تیرے بندے کے حق میں اچھا ہو۔ نقل ہوا ہے کہ آپ اس قدر خوف خدا میں گریہ و زاری کرتے تھے، آنسووں سے آپ کے محاسن مبارک تر ہوجاتے۔ امام علیہ السلام قرآن بہت ہی اچھی آواز میں تلاوت فرماتے تھے، جو کوئی آپ کی آواز سنتا حیرت میں پڑجاتا اور اس پر گریہ طاری ہوجاتا تھا۔ مدینہ والے آپ کو “زین المجتہدین” زینت شب زندہ داران) کےلقب سے یاد کرتے تھے۔(الارشاد، شیخ مفید،ص270) حضرت امام کاظم علیہ السلام کو جب ہارون نے قید خانہ میں قید کردیا تو امام علیہ السلام نے یہ جملے ارشاد فرمائے جس سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ امام علیہ السلام عبادت خدا کے کس قدر عاشق تھے۔ ” اللَّهُم انی طالما کنت اسالک ان تُفرّغنی لعبادتک ، وقد استجبتَ لی ، فَلَک الحمدُ على ذلک”۔(عیون اخبار الرضا،]1،ص81،طبع قم) خدایا! میں مدتوں سے یہ دعا مانگ رہا تھا کہ مجھے فرصت عنایت فرما، تاکہ میں تیری عبادت کرسکوں۔ آج میری وہ دعا قبول ہوگئی جس کی بنا پر میں تیری بارگاہ میں سپاس گذار ہوں۔

امام علیہ السلام کی عمر رسیدہ اور بزرگ افراد کی مدد اور احترام:

زکریای اعور کہتا ہے: حضرت موسی کاظم علیہ السلام نماز میں مشغول تھے، آپ کے سامنے بوڑھا شخص بیٹھا ہوا تھا اور اٹھنا چاہا اور اپنی لاٹھی کو ہاتھ میں لینے کا ارادہ کر لیا، امام موسی کاظم علیہ السلام نماز کی حالت میں ہوتے ہوئےجگہ سے اٹھ گئے اور بوڑھاےشخص کی لاٹھی کو اٹھایا اور اس شخص کے ہاتھ میں دے دیا، پھر اپنے مصلی پر چلے گئے اور اپنی نماز کو آگے بڑھایا۔(منتہی الآمال،ہشتم از مکارم اخلاق حضرت) اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمررسیدہ اور بوڑھے افراد کی مدد اور دیکھ بھال ایک قابل قدر عبادت ہے یہاں تک کہ نماز کی حالت میں بھی ان کی ضروریات کو پوری کرنا اور ان کی مدد کرنا ایک اچھا اور مطلوب کام ہے۔ دوسری روایت میں بیان ہوا ہےکہ: کوئی شخص ایک عمررسیدہ اور بوڑھے شخص کی اس کے سفید بالوں کی خاطر، اس کا احترام کرے تو خداوند متعال اسے قیامت کے خوف اور ڈر سے امان دے گا۔ ایک اور روایت میں پیغمبر اکرم(ص) سے نقل ہوا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:” عمر رسیدہ اور بوڑھوں کا احترام کیا کرو، کیونکہ ان کی تجلیل اور احترام، اللہ تعالی کی تجلیل اور احترام ہے۔ ایک اور روایت میں وارد ہوا ہے کہ معصوم نے فرمایا:” تمہارے عمر رسیدہ اور بوڑھوں کے ساتھ برکت ہے، عمر رسیدہ شخص تمہارے درمیان، پیغمبر کا اپنی امت کے درمیان ہونے کے مانند ہے”۔(اصول کافی،ج2،ص658)

امام علیہ السلام کی بردباری اور حلم:

بنی عباس کی حکومت کے دوران جب پوری ملت اسلامیہ میں آزادی نام کی کوئی چیز نہ تھی، لوگوں کی جائیداد کو بیت المال کے نام پر ضبط کیا جا رہا تھا اور اس کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا۔ عوام فقر وفاقہ کا بری طرح شکار تھے، تعلیم و تربیت سے بالکل بے بہرہ تھے، صرف انہیں چیزوں کا رواج تھا جس سے حکومت کی قداست باقی رہے۔ لوگ اپنی جہالت اور نادانی کی بنا پر کبھی امام علیہ السلام کی شان میں برے الفاظ کہتے مگر امام علیہ السلام اپنے اخلاق و کردار سے غم و غصہ کو روکتے اور انہیں اخلاقیات کی تعلیم دیتے تھے۔ ایک شخص مدینے میں زندگی بسر کرتا تھا اور جب کبھی امام علیہ السلام سے آمنا سامنا ہوتا تو آپ کی شان میں گستاخی کرتا۔ امام علیہ السلام کے بعض اصحاب نے امام علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم اس کا کام تمام کردیں۔ لیکن امام علیہ السلام ہمیشہ ان کو اس اقدام سے روکتے رہے۔ ایک دن امام علیہ السلام نے اس شخص کے گھر کا ایڈریس دریافت فرمایا اور پتہ چلا کہ وہ شخص شہر مدینہ کے باہر کھیتی باڑی کرتا ہے۔ امام علیہ السلام اسی حالت میں اس کے قریب گئے۔ اس نے وہیں سے چیخ کر کہنے لگا: “میرا کھیت نہ روندیئے!” مگر امام علیہ السلام نے اس کی آواز پر کوئی توجہ نہ دی، اس کے قریب پہونچ کر آپ سواری سے اترے اور بہت ہی خندہ پیشانی سے اس سے پوچھا: بھائی اس زراعت پر تم نے کتنا خرچ کیا ہے؟ اس شخص نے جواب دیا سو دینار اس زراعت پرخرچ ہوا ہے۔ امام علیہ السلام نے پوچھا اس کے کتنے منافع کا امید رکھتے ہو؟ اس شخص نے جواب دیا مجھے تو علم غیب نہیں ہے! پھر بھی تمہیں کتنی امید ہے؟ تقریبا دوسو 200 دینار فائدے کی امید ہے۔ امام علیہ السلام نے تین سو 300 دینار اسے د‏ئے اور فرمایا اس کے ساتھ یہ زراعت بھی تمہاری، اور جتنے کی امید ہے انشا‏ء اللہ تمہیں اتنا ملے گا۔

وہ شخص فورا کھڑا ہوگیا اور امام علیہ السلام کی پیشانی مبارک کا بوسہ لیا اور عرض کیا: “مولی! میں نے آپ کی شان میں بہت جسارت کی ہے، اور میں اپنی گستاخیوں کے سلسلے میں آپ سے معافی کا طلبگار ہوں”۔ امام علیہ السلام نے ہلکا سا تبسم فرمایا اور واپس چلے گئے۔ دوسرے دن یہی شخص مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ امام علیہ السلام تشریف لائے، جیسے ہی ان کی نگاہ امام علیہ السلام پر پڑی تو کہنے لگا: “اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ۗ”(انعام/6) خداوند عالم بہتر جانتا ہے کہ وہ پیغام(رسالت) کس کے سپرد کرے۔ اشارہ اس طرف تھا کہ امامت اور خلافت صرف امام موسی علیہ السلام کو زیب دیتی ہے۔ لوگوں نے آکر اس سے دریافت کیا کہ آخر معاملہ کیا ہے۔ پہلے تو تم بہت برا بھلا کہا کرتے تھے۔ اس نے پھر امام علیہ السلام کے حق میں دعا کرنا شروع کردی اور لوگ اس سے بار بار اس تبدیلی کی وجہ پوچھے جارہے تھے۔ ایک دن امام علیہ السلام نے ان لوگوں سے دریافت کیا جو اس کے قتل کا ارادہ رکھتے تھے، کہ بتاو کون سا اقدام زيادہ بہتر تھا، تمہاری وہ نیت یا میرا یہ عمل۔(الارشاد، شیخ مفید،ص278،تاریخ بغداد،ج1،ص28)

امام علیہ السلام اور بشر حافی کا واقعہ

علامہ حلی(رح)نے منہاج الکرامہ میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے کہ جب آپ بغداد میں انتہائی پریشانی کی زندگی گذار رہے تھے تو ایک دن ایک راستے سے گذر رہے تھے دیکھا کہ گھر کے اندر رقص کی محفل جمی ہوئی ہے اور باہر گانے کی آواز آرہی ہے۔ اسی اثنا میں گھر کی کنیز کوڑا پھینکنے کے لئے باہر آگئی۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ یہ مکان کسی بندے کا ہے یا آزاد کا؟ اس نے فورا جواب دیا کہ آزاد کا۔ آپ نے فرمایا کہ بے شک اگر بندہ ہوتا تو اپنے مالک کی اطاعت کرتا، اور یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے۔ کنیز گھر کےاندر واپس آئی تو صاحب خانہ بشر نے تاخیر کا سبب پوچھا۔ اس نے واقعہ بیان کیا۔ بشر کے دل پر واقعہ کا اس قدر اثر ہوا کہ ننگے پیر دوڑ پڑے اور حضرت سے ملاقات کرکے بارگاہ احدیت میں استغفار کیا اور تمام عمر اس واقعہ کی یاد میں ننگے پیر چلے۔ اور جب بعض افراد نے سوال کیا کہ اس پابرہنگی کا راز کیا ہے؟ تو کہا کہ پروردگار نے زمین کو بساط اور فرش سے تعبیر کیا ہے اور بندہ کی مجال نہیں ہے کہ مالک کے فرش پر جوتا پہن کر چلے۔ اس ایک مختصر سے جملے سے انسان کے کردار میں اتنا بڑا انقلاب پیدا کر دینا کہ شراب و کباب سے تقوی اور طہارت کی منزل تک آجائے۔

امام علیہ السلام کی شہادت:

25رجب 183ہجری کو بغداد میں سندی بن شاہک ملعون کے قید خانہ میں امام علیہ السلام کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔ امام مظلوم کئی سال تک زندان بہ زندان منتقل ہوتے رہے۔ لیکن جب امام علیہ السلام سندی بن شاہک کے زندان میں منتقل ہوا تو امام علیہ السلام کی دعا کا لہجہ بدل جاتا ہے:” “يَا سَيِّدِي نَجِّنِي‏ مِنْ‏ حَبْسِ‏ هَارُونَ‏ وَ خَلِّصْنِي مِنْ يَدِهِ يَا مُخَلِّصَ الشَّجَرِ مِنْ بَيْنِ رَمْلٍ وَ طِينٍ‏ وَ يَا مُخَلِّصَ اللَّبَنِ‏ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَ دَمٍ ‏”۔(عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج‏1، ص: 93-94) علی بن ہاشم اپنے والد سے نقل کرتا ہے:”جب ہارون نے موسی بن جعفر علیہ السلام کو زندان میں ڈالا، رات کی تاریکیوں میں آپ ہارون سے خوف زدہ تھے کہیں ہارون انہیں شہید نہ کردے۔ آپ نے تجدید وضو فرمایا اور رو بقبلہ ہوکر چار رکعت نماز پڑھی اور ہاتھوں کو بلند کرکے دعا کی اے میرے آقا مجھے ہارون کے زندان سے نجات دے اور یہاں سے رہائی عطا فرما۔اے وہ ذات جو درخت کو خاک اور ریت سے پیدا کرتا ہے، اے وہ ذات جو دودھ کو خون سے خارج کردیتا ہے مجھے ہارون کے زندان سے رہائی عطا فرما۔ امام علیہ السلام پر مختلف قسم کے مظالم ڈھائے گئے اور ہارون کا زندان کالا گڑھا تھا یعنی ہارون اپنے دشمنوں کے لئے ایسے گھڑے کھودواتے جس کا نہ کوئی دروازہ تھا اور نہ کوئی کھڑکی، اس میں دن اور رات کی کوئی پہچان نہیں ہوتی تھی۔ اس لئے امام مظلوم علیہ السلام کی زیارت میں پڑھتے ہیں:” ” وَ الْمُضْطَهَدِ بِالظُّلْمِ وَ الْمَقْبُورِ بِالْجَوْرِ وَ الْمُعَذَّبِ فِی قَعْرِ السُّجُونِ وَ ظُلَمِ الْمَطَامِیرِ ذِی السَّاقِ الْمَرْضُوضِ بِحَلَقِ الْقُیُودِ وَ الْجَنَازَةِ الْمُنَادَى عَلَیْهَا بِذُلِّ الاسْتِخْفَافِ وَ الْوَارِدِ عَلَى جَدِّهِ الْمُصْطَفَى وَ أَبِیهِ الْمُرْتَضَى وَ أُمِّهِ سَیِّدَةِ النِّسَاءِ”۔سلام ہو اس امام پر جس کے بدن مبارک ظلم و ستم سے پائمال ہوا، بے انصافی کے ساتھ دفنایا گیا،اور آپ کے اوپر زندان کے اندھیروں اور گہرائیوں میں مظالم ڈھائے گئے، پیروں میں طوق زنجیر تھے۔ ایسا جنازہ جس پر ذلت کے ساتھ اعلان کیا گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں