0

اے انتظار! آخر تو کب ختم ہوگا ؟

تحریر: مولانا سید حسین عباس عابدی

جی ہاں! میں سر زمین فلسطین ہوں جسے دین اسلام نے نہایت ہی مبارک و محترم جانا ہے، مجھ پر ہی بیت المقدس یعنی مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، جس کا شمار اسلام کی بڑی مسجدوں میں ہوتا ہے، میں ہی انبیائے کرام علیہم السّلام کی قدم گاہ ہوں، میرے دامن سے بی اسلامی تاریخ کا ایک بڑا حصہ وابستہ ہے، مجھ سے ہی حضور کے سفر معراج کی ابتداء ہوئی ہے۔

ہر روز کی طرح آج بھی جب سورج نکلا تو ایک امید بھرا انتظار تھا کہ یقیناً وہ اپنی کرنوں کے ساتھ زخمی دلوں کے لئے مرہم، خوشگوار لمحے اور اطمینان و سکون کی کوئی نوید سنائے گا اور اے کاش ایسا ہی ہوتا، لیکن افسوس کہ آج کا دن بھی گزشتہ کئی سالوں کی طرح بھیانک، بلکہ اس بھی زیادہ خطرناک مناظر لے کر نکلا، وہی زایونسٹ یہودیوں کا وحشی پن، وہی ان کی بربریت، وہی ان کا ظلم و ستم، وہی ان کے خون پیتے بم، وہی ان کے آگ اگلتے میزائل، وہی ان کا اپنے علاوہ ہر انسان کو غلام بنانے کا پرانہ گھسا پٹا سا خواب اور اس کو تعبیر تک پہنچانے کے لئے اخلاقی و جنگی جرائم کا ارتکاب، وہی جنگ کی فضاء، وہی جگہ جگہ خون کے نشانات، وہی سسکتی ہوئیں مائوں کی بے کسی، وہی روتے ہوئے بچے، وہی بھائیوں کو ڈھونڈتی بہنیں، وہی پیاس سے بلکتی ہوئی معصوموں کی صدائیں، وہی لرزتے ہوئے دلوں کی دھڑکن جو بموں اور میزائلوں کی گڑگڑاہٹ میں صاف سنائی دیتی، جہاں بھی دیکھو بے گناہوں کی لاشوں کا انبار، جس جگہ بھی نظر اٹھاؤ انسانی بدن کے بکھرے ہوئے اعضاء، جس سمت بھی نگاہ کرو بدترین تشدد کی منہ بولتی تصویریں، جس طرف بھی سر اٹھاؤ سرخ مٹی، لال دیواریں، خوں رنگ سڑکیں، کوئی کسی ملبے میں دبا ہوا مدد کا منتظر تو کوئی اپنے مسمار ہوئے گھر کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہوا، کوئی بھوک کی تڑپ سے بے حال تو کوئی ایک قطرہ پانی کو ترستا ہوا، کوئی بندوق کی گولی کھا کر دم توڑتا ہوا تو کوئی اپنے زخمی بدن سے بہتے ہوئے لہو کو تکتا ہوا، کوئی اسلحوں کی برستی ہوئی آگ سے بچ کر ایک پناہ گاہ سے دوسری پناہ گاہ کی طرف بھاگتا ہوا تو کوئی صبح سے چھوٹے بڑے جنازوں کو قبر تک پہونچا کر تھکا ہوا، کوئی مریضوں پر گرتے ہوئے بموں کو دیکھتا ہوا تو کوئی خواتین کی اجڑی ہوئی آغوش میں کسی کو ڈھونڈتا ہوا، کوئی شیطان صفت زایونسٹ فوجیوں سے لڑتا ہوا تو کوئی مجاہدین اسلام کے قدم سے قدم ملاتا ہوا ۔ الغرض چاروں طرف ایک کھلے ہوئے زندان کا نظارہ ہے۔

جی ہاں! میں سر زمین فلسطین ہوں جسے دین اسلام نے نہایت ہی مبارک و محترم جانا ہے، مجھ پر ہی بیت المقدس یعنی مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، جس کا شمار اسلام کی بڑی مسجدوں میں ہوتا ہے، میں ہی انبیائے کرام علیہم السّلام کی قدم گاہ ہوں، میرے دامن سے بی اسلامی تاریخ کا ایک بڑا حصہ وابستہ ہے، مجھ سے ہی حضور کے سفر معراج کی ابتداء ہوئی ہے۔ سبحن الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الۡحرام الی المسجد الاقصی الذی برکنا حولہ لنریہ من ایتِنا ؕ انہ ھو السمیع البصِیر.

پاک ہے وہ جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے اس مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے گرد و پیش میں ہم نے برکتیں رکھیں تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، یقینا وہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔(۱)

اسلام کی نگاہ میں اتنی بابرکت ہونے کے بعد بھی کروڑوں مسلمانوں کے ہوتے ہوئے بھی آج میں اکیلی ہوں اور اپنے انتظار کے ساتھ ساتھ یہودیت کے اس ظلم و ستم کے طوفان میں مسلمان حکمرانوں کی بے حسی و بے غیرتی کو تلاش کرتی پھر رہی ہوں۔

بہرحال پھر میں آج کو چھوڑ کر ایک نئے کل سے اسی امید کو دل سے لگائے اپنے انتطار کو مسکرا کر دیکھتی رہ گئی اور آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھنے لگی اے انتظار! آخر تو کب ختم ہوگا ؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں