انڈیا اتحاد۔۔۔’’کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا ‘‘
رشید پروینؔ سوپور
دیکھا جائے تو اسوقت وہ لوگ اور عوام جو جمہوریت پر اعتماد رکھتے ہیں ،جو ذہنی طور سیکولر ہیں اور بھارت کی صدیوں پرانی گنگاجمنی تہذیب سے لگاؤ رکھتے ہیں یا بلکل سادہ اور مختصر سے الفاظ میں یہ کہ جو بھارت کے تنوع میں بھارت کی شان رفتہ کا ادراک رکھتے ہیں ، ۔۔ وہ اسوقت مایوسی کا شکار بھی ہیں اور اس مایوسی میں وہ زبردست ذہنی اور جسمانی تناؤ کی اذیت میں بھی مبتلا ہیں ، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام سمجھتے ہیں کہ بھارت کے سیاسی افق پر روشنی اور امید کی ایک چھوٹی سی کرن ،انڈیا الائنس ‘‘ کی صورت جو ابھر آئی تھی ، ٹمٹمارہی ہے اور شاید بجھنے ہی کے قریب ہے ۔عوام ’’انڈیا الائنس ‘‘کے مقابل بی جے پی کے حجم، اس کی پاور ، اور طاقت کا بھی صحیح اندازہ رکھتے ہیں اور اس حقیقت سے بلکل واقف ہیں کہ ایک متحد اور منظم پارٹی کے مقابل بھان متی کا گھر جوڑنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہوتا ہے ،یا یوں کہ آندھیوں میں ایک چراغ جلانے کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے۔خصو صاً اس سیاسی ماحول میں جب ہر پارٹی اپنے دائرے اور خول سے کسی طرح باہر آنے کے حق میں ہی نہ ہو بلکہ اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر اپنی پارٹی مفادات کے دائرے میںمقید ہوں ،ان تمام پارٹیوں کو یہ ادراک ہونا چاہئے تھا کہ اسوقت بی جے پی تمام سیاسی اور سماجی شعبوں میں نہ صرف مظبوط ہے بلکہ سیکولر اور جمہور پسند ہزاروں سر کردہ لوگ بھی جن کی خدمات کانگریس جیسی پارٹیوں کے لئے ماضی میں دہائیوں وقف رہی ہیں وہ بھی جانے اَجانے وجوہات کی بنا پر اپنی پارٹیوں سے موسمی پرندوں کی طرح بی جے پی کے آشیانوں میں منتقل ہو رہے ہیں، یہ صرف کانگریس کا حال نہیں بلکہ سینکڑوں دوسری پارٹیوں کے متحرک ورکر اور لیڈر بھی بی جے پی کیمپ میں ہی اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور بہت سارے عذابوں اور مصائب سے بچنے کی خاطر اس کیمپ میں پناہ گزیں ہو رہے ہیں۔ کانگریس ایک بڑی اور ملک گیر پارٹی کی حثیت سے اس سیلاب کے آگے باندھ بنا سکتی تھی ، لیکن اپنے طویل دور حکمرانی میں وہ بہت سارے اہم مسائل اور مستقبل میں اٹھنے والے طوفانوں کو نہ تو بھانپ سکی اور نہ ہی ان کا سدباب کر سکی ،اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اتنی بڑی پارٹی جس نے سارے بھارت پر دہائیوں حکمرانی کی ہے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ،اچھے خاصے قد آور لیڈر اس پارٹی کو دہائیوں بعد چھوڑ رہے ہیں ۔ظاہر ہے کہ اس کی تشریحات کرنے کی زیادہ ضرورت نہیں۔ کانگریس کو اپنا محاسبہ کرنا چائے تھا اور اس ٹوٹ پھوٹ کی تشخیص کر کے ہی اس کا مداوا اور تدارک کرنے کے اقدامات کرتی ،لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ پارٹی اپنے محاسبے سے ہی جی چراتی ہے اور وہ اقدامات نہیں کر پارہی ہے جن کی ضرورت تھی ، بھارت کے لوگ بی جے پی کا لائحہ عمل اور طریق کار بخوبی جانتے ہیںاور سمجھتے ہیں ، ، سام ۔دام اور ڈنڈ ،،اور ڈند کے لئے بھارت کی تمام ایجنسیاں موجود ہیں جو ۔اب اسی ایک رنگ میں پوری طرح رنگ چکی ہیں اور اس طریق کار کو اب سماجی اور سیاسی اقدار کا درجہ مل چکا ہے ، ڈنڈ کے لئے کئی ایجنسیاں موجود ہیں جن کی پاور بے انتہا ہے اور جو فی الحال کہیں بھی جوابدہ نہیں اور بڑی آ سانی کے ساتھ مظبوط تر چٹانوں کو بھی ریزہ ریزہ کرنے کی قوت رکھتی ہیں۔
اس کے بر عکس کانگریس نے د ہائیوں ہندوستان پر راج کیا ہے ، اس پا رٹی کو ملک گیر ہونے کا شرف بھی حاصل رہا ہے ، اور یقینی طور پر دوسری پارٹیاں کانگریس کے مقابل قطروں کی حثیت رکھتی تھیں اور کانگریس ایک سمندر ۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کانگریس کے دورانیہ میں بھارت نے اپنی تیز رفتار تعمیر و ترقی کا سفر جاری رکھا ۔ بہت سارے شعبوں میں قابل فخر کارنامے بھی انجام دئے جو،ان برسوں میں میڈیا کی چکا چوند نے بہت پیچھے دھکیل دئے اورہر طرف اور ہر سو بی جے پی کے ہوا محلوں اور خوابوں کو قریہ قریہ ، شہر شہر اور گاؤں گاؤں فروخت کرنے کا بڑا کارنامہ انجام دیا جو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے ۔ ۔ یہ ایک زمینی حقیقت ہے کانگریس ،عوام کو نہ تو شعور دے سکی اور نہ ہی انہوں نے اپنی توجہ نئی نسلوں کی تعلیم و تربیت پرمر کوز کی ۔وہ اس بات کو ہی نظر انداز کرتے رہے کہ آنے والی نسلوں کی ذہنی نشوونما کسی بھی ملک کے مستقبل کو متعین کرتی ہے ۔کانگریس کی سب سے بڑی خطا یہ رہی جس کی سزا انہیں شاید بہت ساری دہائیوں تک ملتی رہے گی یا شاید وہ لاکھ جتن کرنے کے باوجود اب ملکی سیاست کی سطح پر ابھر ہی نہ سکے۔
اس پس منظر میں انڈیا الائنس عوامی سطح پر ایک تریاق نظر آنے لگا تھا ، لیکن لگتا ہے کہ یہ الائنس شاید زمین پر اپنے قدم رکھنے ہی میں ناکام رہے ،اس کی سب سے بڑی وجہ جہاں خود کانگریس رہی ہے جو ابھی تک سیاسی گھٹاؤں کو سمجھنے اور پڑھنے سے ہی قاصر رہی ہے یا اپنی انانیت اور بزعم خود میں ملکی سیاست کو صحیح انداز میں سمجھنے سے ہی معزور ہے ، کچھ تو ہے کہ اس پارٹی سے وہ لوگ بھی ایک ایک کرکے دوسرے پنجروں کی زینت بنتے جارہے ہیں جو یہاں موتی کے دانے چگتے رہے ہیں ،، اس پسِ منظر میں اب ذرا ان باتوں پر غور کریں کہ جنتا دل یو کے صدر نتیش کمار نے پھر ایک بار پلٹی ماری ہے اور یہ ان کے لئے کوئی نئی بات نہیں ، وہ اقدار کے لئے کچھ بھی کر گذرتے ہیں ،،کیونکہ وہ ایک موسمی سیاست داں ہے جو ہر موسم اور ہوا کے رخ کے ساتھ بدلتا رہتا ہے ، وہ انڈیا الائنس سے علیحدہ ہوچکے ہیں ، ،، ایک اور اہم لیڈر ممتا بنر جی نے بھی پہلے ہی سے الگ اپنے بل بوتے پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ، ،، کیجروال کی عام آدمی اگر چہ ابھی تک الائنس کا حصہ ہے لیکن اس نے بھی پنجاب میں بغیر کسی اتحاد کے انتخابات میں حصہ لینے کا عندیہ دیا ہے ، ،، اور اتر پردیش آپ کو معلوم ہے کہ شمالی ہند کی وہ ریاست ہے جس میں لوک سبھا کے لئے سب سے زیادہ نشستیں مخصوص ہیں ، لیکن حال میں یہ ریاست مودی ، یوگی کی ایک ایسی تجربہ گاہ بنی ہے جہاں ہندوتا کے لئے نئے نئے کیمکلز ایجاد کرکے انہیں آزمایا جارہا ہے ،، ،، سماج وادی پارٹی اکھلیش یادو کے علاوہ بھی اگر چہ کچھ سیکولر پارٹیاں انڈیا الائنس میں موجود ہیں جیسے مہاراشٹر کی نیشنلسٹ کانگریس، ادھے ٹھاکر کی شیو سینا ، جھار کھنڈ کی جے ایم ایم ،تامل ناڈو کی ڈی ایم کے، اور کشمیر کی نیشنل کانفرنس۔ لیکن ، ان سب پارٹیوں سے کسی طرح یہ توقع نہیں کھی جاسکتی کہ بی جے پی پر بھاری پڑ کر اس سے انتخابات میں شکست دے سکیں ، یقینی طور پر یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کی بڑی اور ہر کونے میں ملک گیر پارٹی اس وقت بھی کانگریس ہی ہے اور کانگریس ہی پر سب سے بڑی ذمہ داری یہ عاید ہوتی ہے کہ وہ اپنی سیکولر شبیہہ اور خدو خال کو بھی بر قرار رکھے اور صحیح معنوں میں گرینڈ الائنس کی ذمہ داری وقت کے تقاضوں کے مطابق پوری کرے اور ہر قیمت پر اس سے آگے بڑھانے کے لئے اپنی انا اور بزعم خود سے باہر آکر دوسری چھوٹی بڑی پارٹیوں کے لئے مشعل راہ بن جائے۔
اس بار اگر کانگریس سے پھر وہی چوک ہوئی اور اپنے ہی خول میں بند رہی تو نتیجہ نوشتہ بہ دیوار ہے اور بی جے پی کی جیت یقینی ہے ، الائنس میں تمام پارٹیوں کو یہ سمجھنا لازمی ہے کہ اداروں اور ایجنسیوں سے کسی قسم کے انصاف اور آئین کے مطابق رویئے کی امید نا رکھیں کیونکہ سرکار کا کوئی ایسا شعبہ اسوقت موجود نہیں جو ان کی ہدایات پر عمل پیرا نہ ہو ، یہاں تک کہ ان کی گرفت بھارت کے کلیدی اور بڑے اہم اداروں پر بھی مظبوط ہے اور اگر اس بار بھی وہ سرکار بنانے میں کامیاب رہے ، تو یقینی طور پر اقلیتوں کے ساتھ ساتھ ان سیکولر پارٹیوں کو بھی اس بڑے اور وسیع دیس میں کہیں ٹھکانہ میسر نہیں آئے گا ،،انڈیا الائنس کو اس بات کا مکمل ادراک ہونا چاہئے اور خصوصاً کانگریس پارٹی جس کے سپورٹر اور ووٹر بھارت کی ہر ریاست اور ہر کونے میں ابھی تک موجود ہیں مایوس ہوکر مستقبل سے غافل اور لا پروا نہ ہوں ، یہاں کانگریس کو بس اتنا سا کرنا ہے کہ اپنی انانیت کے خول سے باہر آکر تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کو اس کشتی میں سوار ہونے کا موقع دیں اور انہیں کسی بھی صورت میں اکاموڈیٹ کر کے ان پارٹیوں کو فرار ہونے کا موقع نہ دیں ، ایک بڑی پارٹی ہونے کے ناطے اپنے رول اور اہمیت کو سمجھتے ہوئے سیٹوں کی سیاست سے اوپر اٹھ کر ایک نظرئے اور پروگرام کو متاع پارٹی بناکر آگے چلیں۔ ماضی قریب میں غلام نبی آزاد نے دہائیوں بعد کانگریس سے اپنی راہیں جدا کرتے ہوئے جو بیان دیا تھا ، جس پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی گئی تھی اب ایک اور مسلم کانگریسی رہنما مہاراشٹر کے بابا صدیقی نے بھی کئی دہائیوں بعد کانگریس سے کنارہ کش ہوتے ہوئے اسی طرح کا بیان دیا ہے ، جس پر کانگریس کے کلیدی عہدے داروں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور’’سافاٹ ‘‘ہندوتا،، مسلم کانگریسی وفاداروں سے دوری ۔بنا کر منزل تک پہنچنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اپنی شبیہہ اور خدو خال بدلنے کے بجائے اپنے ٹریک کو فالو کرنا چاہئے تاکہ اس پارٹی کی شانِ رفتہ بحال ہونے کے مواقع موجود رہیں ۔