امیر المؤمنین علی (ع) اور انسانی حقوق
تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
ذاتِ واجب فقط پروردگار ہے اس کے علاوہ سب ممکن الوجود ہیں، اللہ خالق ہے کائنات کے ذرے ذرے کو اسی نے خلق کیا ہے، اس کے علاوہ کوئی خالق نہیں۔ اللہ نے اپنی مخلوقات میں انسان کو اشرف مخلوق قرار دیا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالی نے انسانی خلقت کے سلسلے میں فرمایا:”لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ” (ہم نے انسان کو بہترین ساخت و انداز کے ساتھ پیدا کیا۔ سورہ تین، آیت 4)
“فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ” (پس بڑا بابرکت ہے وہ اللہ جو بہترین خالق ہے۔ سورہ مومنون، آیت 14)
انسانی عظمت و فضیلت کے حوالے سے ارشاد ہو رہا ہے:”وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ” (بے شک ہم نے اولادِ آدم کو بڑی عزت و بزرگی دی ہے اور ہم نے انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا (سواریاں دیں) پاک و پاکیزہ چیزوں سے روزی دی اور انہیں اپنی مخلوقات پر (جو بہت ہیں) فضیلت دی۔ سورہ اسراء، آیت 70)
“أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ” (جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ تعالیٰ نے سب کو تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے۔ سورہ لقمان، آیت 20)
مذکورہ آیات سے انسان کی عظمت و فضیلت اور اہمیت واضح اور روشن ہے کہ اللہ نے اس کو بہترین ساخت میں پیدا کیا اور اس کو تمام مخلوقات پر فضیلت عطا کی ہے۔
لیکن یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اللہ نے جس قدر عظمت و فضیلت انسان کو عطا کی ہے اس انسانی اقدار و فضیلت کو کچلنے والا ماضی سے آج تک کوئی اور نہیں بلکہ انسان ہی رہا ہے لہذا اس سلسلے میں مختلف ممالک میں انسانی حقوق کی پاسداری کے نعرے لگائے گئے، لیکن افسوس کہ ایک جانب اقدار انسانی کی پاسبانی کے نعرے لگ رہے ہیں تو دوسری جانب انسانیت تڑپتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور جن لوگوں نے انسانی حقوق کے نعرے لگائے ان کے نزدیک انسان سے مراد صرف ان کی ذات رہی یا ان کا خاندان رہا یا ان کا قبیلہ رہا اور بہت وسعت نظر آئی تو انہوں نے اپنے ملک کو سمجھا بلکہ ملک میں بھی انہوں نے صرف اپنی ذات اور برادری کو ہی انسان سمجھا اور صرف ان کے حقوق کی بات کی، باقی اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کو کچلنے میں کبھی کوئی تکلف نہیں کیا۔ نتیجہ یہ ہوا اور آج تک دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ایک جانب جو نام نہاد انسانی حقوق کی پاسبانی کا بھوپو بنے ہوئے ہیں خود انہی کے ذریعہ یا ان کے زیر اثر لوگوں کے ذریعہ یا ان کے چاہنے والوں کے ذریعہ انسانیت کچلی جا رہی ہے، بے گناہ قتل کئے جا رہے ہیں لوگ بھوکوں مر رہے ہیں، بچے یتیم ہو رہے ہیں، خواتین بیوہ ہو رہی ہیں بلکہ ننھے ننھے معصوم بچے بھوک و پیاس یا جان لیوا حملوں سے اپنی جانیں گنواں رہیں ہیں لیکن اس کے باوجود دوسری جانب انسانی حقوق کا نعرہ لگانے والے سکوت میں ہی اپنی مصلحت سمجھ رہے ہیں۔
یہ حقیقت پھر واضح اور روشن ہو جائے کہ نہ صرف عام انسان تاریخ میں کچلے گئے، دبائے گئے قتل ہوئے، ان کے خونوں سے ہولیاں کھیلی گئیں، ان کو بھوکا اور پیاسا رکھا گیا بلکہ جن لوگوں نے تڑپتی انسانیت، دنیا کے مظلوموں اور کمزوروں کے حق میں آواز اٹھائی ان کو بھی بے دردی سے شہید کیا گیا۔ اور اس اقدار انسانی کے محافظ شہیدوں کے سردار امیر المومنین امام علی علیہ السلام ہیں۔ کیونکہ دنیا کے بادشاہوں کو ان کے ظلم کے سبب بے دخل کیا جاتا ہے، قتل کیا جاتا ہے لیکن کائنات کے تنہا حاکم امیر المومنین امام علی علیہ السلام ہیں کہ جن کو ان کی کثرت عدالت کے سبب محراب عبادت میں شہید کر دیا گیا۔
امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے اپنی تقریبا پانچ سالہ حکومت میں عدالت کی وہ مثال قائم کی کہ لوگوں کو دور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یاد آ گیا کہ دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عادلانہ نظام حکومت کے بعد نام نہاد اسلامی مملکت میں انسانی حقوق عرب و عجم، انصار و مہاجر، خاندان و قبیلہ کے تعصب میں کچلے جا رہے تھے، انسانی اقدار بھی پامال ہو رہے تھے۔ لیکن جب 25 برس بعد نام نہاد اسلامی حاکم کے ظلم و ستم سے عاجز آ کر آخر ایک مرتبہ پھر مسلمان بیت وحی پہ حاضر ہوا اور مطالبہ کیا کہ ہاتھ بڑھائیں ہم آپ کی بیعت کریں گے، دنیا کو پست و ذلیل اور بکری کی چھینک سے زیادہ حقیر سمجھنے والی ذات امیر المومنین علیہ السلام نے انکار کیا لیکن جب ادھر سے اصرار بڑھا تو آپ نے قرآن و سنت کی شرط کے ساتھ بیعت قبول فرمائی۔
امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے اپنی تقریبا پانچ سالہ حکومت میں لوگوں کے عام حقوق پر خاص توجہ فرمائی۔ آپ کی جانب سے ایک الہی رہبر اور رہنما کے عنوان سے اٹھائے گئے قانونی مسائل کے مختلف جہتوں میں درستگی کو قانونی اور سیاسی تحقیق میں ایک منفرد وسیلہ اور اسلام میں انسانی حقوق کی ترقی کے لئے ایک قابل اعتماد معیار سمجھا جاتا ہے۔ آپ نے انسان کے مادی اور معنوی جہتوں کے مطابق مختلف سیاسی، سماجی، ثقافتی اور اقتصادی میدانوں میں حقوق بیان کئے ہیں۔
زیر نظر تحریر میں ہم پانچ جہتوں سے توجہ کریں گے: مساوات، آزادی، امنیت، تعلیم و تربیت اور سماجی تحفظ کا حق
1. مساوات
یہ حق اس جہت سے ثابت ہے کیونکہ تمام انسانوں میں تخلیق کے حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے۔ “اِمّا اخٌ لک فی الدّین او نظیرٌ لک فی الخَلْق” (نہج البلاغہ، خط 53) سارے انسان اللہ کے بندے ہیں۔ “فانّما انا و انتم عبیدٌ مملوکون لربٍّ لا ربَّ غیره” (نہج البلاغہ، خطبہ 216) تخلیق میں برابری کا تقاضہ ہے کہ تمام انسانوں میں مساوات قائم ہو۔ وراثت، نسل، زبان، رنگ، آب و ہوا، دولت اور جنس اس مساوات کو ضرر نہیں پہنچا سکتے، مساوات انسانوں کا مسلم حق ہے جو ان سے چھینا نہیں جا سکتا۔ انسانی مساوات کو مختلف شعبوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
الف۔ حق میں برابری
امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے حلوان کے والی اسود بن قطبہ کو خط لکھا کہ اگر حاکم ہوا و حوس کا اسیر ہوگا تو وہ عدالت سے رک جائے گا لہذا “فَلیکُنْ امرُ النّاسِ عندک فی الحقِّ سواء” (نہج البلاغہ، خط 59) سب انسان حق میں برابر ہوں اور کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں ہے۔
دوسرے مقام پر آپ نے اپنے گورنروں سے خطاب فرمایا: “مجھ پر تمہارے حق کے سلسلے میں یہ حق ہے کہ ہم تم سب کو ایک نظر سے دیکھیں۔ (نہج البلاغہ، خط 50)
جناب مالک اشتر سے فرمایا: کبھی کسی انسان کی شرافت و شخصیت اس بات کا سبب نہ بنے کہ اس کے چھوٹے کام کو بڑا سمجھو اور کسی کی گمنامی اس بات کا سبب نہ بنے کہ تم اس کے بڑے کام کو چھوٹا سمجھو۔” (نہج البلاغہ، خط 53) مولا اس سے بھی واضح طور پر فرمایا: “و اَلْزِمِ الحقَّ مَنْ لَزِمَه من القریب و البعید” سب کے ساتھ حق کو جاری کرو چاہے وہ تمہارا قریبی ہو یا تم سے دور ہو۔ (نہج البلاغہ، خط 53)
جب آپ کو پتہ چلا کہ سہل بن حنیف انصاری کے بعض ساتھی مدینہ میں حاکم شام سے ملحق ہو گئے ہیں تو ان کی دلجوئی کے لئے فرمایا: وہ دنیا پرست ہیں، دنیا کو انہوں نے اپنا قبلہ بنایا اور اسی کی جانب چل پڑے ہیں انہوں نے عدالت کو نہیں پہچانا، جس کا انہوں نے اپنی آنکھوں اور کانوں سے احساس کیا ہے۔ انہوں نے جان لیا ہے کہ ہم حق میں مساوات کے قائل ہیں لہذا وہ ہم سے دور ہو گئے ہیں۔ (نہج البلاغہ، خط 70)
ب۔ قانون میں مساوات
قانون کے اجرا میں سب میں مساوات ہونا چاہیے اور حق کو جاری کرنا چاہیے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے طلحہ اور زبیر کے اعتراض پر فرمایا: “تم نے جو لوگوں کے سامنے کہا کہ ہم نے اپنے ذاتی نظریہ پر فیصلہ کیا ہے تو ہم نے اپنی ذاتی رائے پر فیصلہ نہیں کیا اور نہ ہی ہم نے اپنی خواہشات پر عمل کیا ہے، ہم نے اور تم نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس طرح حکم فرمایا تھا اور کیسے اسے اجرا کیا تھا۔ (نہج البلاغہ، خطبہ 205)
تمہارا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں کتاب خدا اور سیرت رسول پر عمل کروں۔ (نہج البلاغہ، خطبہ 168)
مذکورہ مطالب سے واضح ہوتا ہے کہ قانون کے اجراء میں کسی طرح کا کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے بلکہ قانون سب کے لئے برابر ہے، چاہے عرب ہو یا عجم، گورا ہو یا کالا، سماج کا بلند انسان ہو یا سماج میں معمولی حیثیت رکھتا ہو قانون سب کے لیے مساوی ہے۔
ج۔ بیت المال میں مساوات
امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالی نے علماء سے عہد لیا ہے شکم سیر ظالموں اور بھوکے مظلوموں سے غافل نہ رہیں۔ (نہج البلاغہ، خطبہ 3)
دوسرے مقام پر فرمایا: اللہ تعالی نے ثروت مندوں کے مال میں فقراء کی روزی کو واجب قرار دیا ہے، کوئی فقیر بھوکا نہیں رہا مگر یہ کہ مالدار نے اس کو حق سے روکا اور خداوند عالم ان سے اس سلسلہ میں باز پرس کرے گا.” (نہج البلاغہ، کلمات قصار 329)
مذکورہ مطالب کی روشنی میں نہ تو علماء اس سلسلے میں بے توجہی کر سکتے ہیں اور نہ ہی ثروت مند طبقہ۔
د۔ لوگوں سے ملنے میں مساوات: عام طور پر سماج کا ثروت مند، قدرت مند، مشہور اور دیگر دنیوی امتیازات والے افراد کی رسائی ذمہ داران تک آسان ہوتی ہے بنسبت عام لوگوں کے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے اس جانب بھی اپنے گورنروں کو متوجہ فرمایا جیسے جناب محمد ابن ابی بکر سے فرمایا: “لوگوں سے تواضع اور نرمی سے پیش آؤ، ان سے کشادہ دلی سے ملاقات کرو، انہیں دیکھنے اور اشارہ کرنے میں بھی مساوات کا خیال رکھو تاکہ طاقتور تم سے ظلم کی لالچ نہ کرے اور کمزور عدالت کے سلسلے میں تم سے نا امید نہ ہو۔ (نہج البلاغہ، خط 27)
اسی طرح آپ نے اپنے دوسرے گورنر کو بھی اسی مضمون کا خط تحریر فرمایا (نہج البلاغہ، خط 46)
کیا عدالت میں ایسی رعایت دنیا میں کہیں اور مل سکتی ہے؟ ہرگز نہیں، سوائے امیر المومنین علیہ السلام کے
ہ ۔ جنسیت میں مساوات:
امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے جہاں مردوں پر ظلم کو برداشت نہیں کیا وہیں اگر کسی خاتون پر ظلم ہوا تو اسے بھی برداشت نہیں فرمایا۔ اگر کافر ذمی خاتون پر ستم ہوا تو اس کی بھی آپ نے مذمت کی اسی طرح جب خوارج نے ایک مسلمان خاتون پر ظلم کیا تو آپ نے اس کی بھی مذمت کی۔ یہاں تک کہ اگر آپ کے کسی گورنر کے ظلم کی کسی مرد یا خاتون نے شکایت کی تو آپ نے جس طرح مرد کی شکایت پر حکم جاری کیا اسی طرح خاتون کی شکایت پر بھی حکم جاری کیا۔
قابل ذکر ہے کہ جب خلیفہ زادے نے ابو لولو کی بیٹی لولو کو قتل کر دیا تو آپ اس ظلم پر بھی بے چین ہوئے اور اس پر حد جاری کرنے کی بات کی لہذا جب آپ مسند خلافت پر جلوہ فگن ہوئے تو وہ آپ کی مملکت سے نکل کر شام فرار ہو گیا اور جنگ صفین میں اآپ کے مقابلے میں اآیا اور اسی میدان صفین میں اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
2۔ آزادی
الف۔ آزادی عقیدہ۔ امیر المومنین علیہ السلام کے دور حکومت میں ہر انسان اپنے عقیدے کے سلسلے میں آزاد تھا، اسی طرح اپنے عقیدے کو بیان اور جستجو میں بھی آزاد تھا۔ آپ کی حکومت میں کسی پر کوئی اپنا عقیدہ نہیں تھوپ سکتا تھا۔
امیر المومنین علیہ السلام نے نہ کسی یہودی یا عیسائی کو زبردستی مسلمان بنایا، نہ کسی خارجی پر کوئی پابندی لگائی، حتی بیت المال سے کسی کے وظیفے کو بھی منقطع نہیں کیا۔ آپ کی حکومت میں نہ تو کوئی سیاسی قتل ہوا اور نہ ہی کوئی سیاسی جیل ہوئی۔
ب۔ بیان و قلم کی آزادی
امیر المومنین علیہ السلام نے ہر انسان کو آزاد سمجھا اور کسی کے بھی زبان و قلم پر پابندی نہیں لگائی۔ آپ نے جناب مالک اشتر کو نصیحت فرمائی: “جو لوگ تم سے ملنا چاہتے ہیں تو ان کو اپنے عام جلسے میں ملنے کی اجازت دو اور ان سے حسن اخلاق کے ساتھ ملو اور اپنے مسلح محافظین کو وہاں حاضر ہونے کی اجازت نہ دو تاکہ لوگ بغیر کسی لکنت کے تم سے گفتگو کر سکیں۔ (نہج البلاغہ، خط 53)
اسی طرح امیر المومنین علیہ السلام نے چاپلوسوں کی مذمت کی۔ اور اپنی ستائش اور چاپلوسی کرنے والوں سے دوری بنانے کی نصیحت فرمائی ہے۔
ج۔ مخالف جماعت کو آزادی۔ امیر المومنین علیہ السلام کے زمانے میں حکومت کے مخالف افراد کو بھی مکمل طور پر آزادی تھی اور آپ نے کبھی بھی کسی کی آزادی میں ذرہ برابر بھی دخالت نہیں فرمائی۔ جب تک کہ کسی دوسرے کا حق پامال نہیں ہوا، خوارج جب تک آپ کے خلاف بولتے رہے آپ خاموش رہے اور ان کے خلاف اسی وقت میدان جہاد میں اترے جب وہ خلق خدا پر ظلم کرنے لگے۔
د۔ اجتماعات کی آزادی
امیر المومنین علیہ السلام کے زمانے میں ہر جماعت کو اپنے اجتماع کرنے کا حق تھا آپ نے کسی کی بھی نماز جمعہ و جماعت اور دیگر اجتماعات کو نہیں روکا۔
3۔ امنیت
امنیت بھی لوگوں کا ایک حق ہے کہ جس کے بغیر دیگر بہت سے حقوق پامال ہو جائیں گے۔ امیر المومنین علیہ السلام کے دور حکومت میں ہر انسان کو ہر طرح کی امنیت حاصل تھی چاہے وہ اس کی جان اور شخصیت کے حوالہ سے ہو یا مالی اور اقتصادی لحاظ سے ہو، یا فیصلہ کرنے میں امنیت ہو وغیرہ۔
الف۔ جان و شخصیت کی امنیت۔
امیر المومنین علیہ السلام کے دور حکومت میں ہر انسان کی جان اور شخصیت محفوظ تھی۔ آپ نے فرمایا: “اللہ نے مسلمان کی حرمت کو تمام حرمتوں پر فضیلت عطا کی ہے، اخلاص اور توحید کے ذریعہ مسلمانوں کے حقوق کو مضبوط کیا ہے، پس ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی زبان اور ہاتھ سے امان میں ہو۔” (نہج البلاغہ، خطبہ 167)
اگرچہ امیر المومنین علیہ السلام کے اس قول میں صرف مسلمان کا تذکرہ ہے لیکن عملی حوالے سے غیر مسلم بھی آپ کی حکومت میں احساس امنیت محسوس کرتے تھے۔
ب۔ مالی اور اقتصادی امنیت:
امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے گورنروں کو خطوط میں صدقات اور مالیات کی وصولی میں صبر و تحمل اور نرمی کا برتاؤ کرنے کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا: ” تم رعیت کے خزینہ دار، اُمت کے نمائندے اور اقتدار اعلیٰ کے بھیجے ہوئے ہو۔ کسی سے اس کی ضروریات کو قطع نہ کرو، اور اس کے مقصد میں روڑے نہ اٹکاؤ۔ اور لوگوں سے خراج وصول کرنے کیلئے ان کے جاڑے یا گرمی کے کپڑوں اور مویشیوں کو جن سے وہ کام لیتے ہوں اور ان کے غلاموں کو فروخت نہ کرو، اور کسی کو پیسہ کی خاطر کوڑے نہ لگاؤ، اور کسی مسلمان یا ذِمّی کے مال کو ہاتھ نہ لگاؤ مگر یہ کہ اس کے پاس گھوڑا یا ہتھیار ہو کہ جو اہل اسلام کے خلاف استعمال ہونے والا ہو۔ اس لئے کہ یہ ایسی چیز ہے کہ کسی مسلمان کیلئے یہ مناسب نہیں کہ وہ اس کو دشمنانِ اسلام کے ہاتھوں میں رہنے دے کہ جو مسلمانوں پر غلبہ کا سبب بن جائے۔” (نہج البلاغہ، خط 51)
زکوۃ جمع کرنے والوں سے فرمایا: جب کسی قبیلے کی طرف جانا تو لوگوں کے گھروں میں گھسنے کی بجائے پہلے ان کے کنوؤں پر جا کر اترنا، پھر سکون و وقار کے ساتھ ان کی طرف بڑھنا، یہاں تک کہ جب ان میں جا کر کھڑے ہو جاؤ تو ان پر سلام کرنا اور آداب و تسلیم میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنا۔ اس کے بعد ان سے کہنا کہ: اللہ کے بندو! مجھے اللہ کے ولی اور اس کے خلیفہ نے تمہارے پاس بھیجا ہے، اگر تمہارے مال میں اللہ کا کوئی حق نکلتا ہے تو اسے وصول کروں، لہٰذا تمہارے مال میں اللہ کا کوئی واجب الاداء حق ہے کہ جسے اللہ کے ولی تک پہنچاؤ؟
اگر کوئی کہنے والا کہے کہ: نہیں، تو پھر اس سے دہرا کر نہ پوچھنا۔ اور اگر کوئی ہاں کہنے والا ہاں کہے تو اسے ڈرائے دھمکائے یا اس پر سختی و تشدد کئے بغیر اس کے ساتھ ہو لینا اور جو سونا یا چاندی (درہم و دینار) وہ دے لے لینا۔” (نہج البلاغہ، خط 25)
ج۔ عدالت میں امنیت
ہر حکومت میں عدالت سماج کی امنیت اور عدالت کی ضمانت ہوتی ہے، خاص طور سے سماج کے کمزور طبقے کے لئے۔ لیکن یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب فیصلہ کرنے والا عادل ہو اور وہ خود حق کے سلسلہ میں ثابت قدم ہو۔ امیر المومنین علیہ السلام نے جناب مالک اشتر کو لکھا: “لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرنے کیلئے ایسے شخص کو منتخب کرو جو تمہارے نزدیک تمہاری رعایا میں سب سے بہتر ہو، جو واقعات کی پیچیدگیوں سے ضیق میں نہ پڑ جاتا ہو، اور نہ جھگڑنے والوں کے رویہ سے غصہ میں آتا ہو، نہ اپنے کسی غلط نقطۂ نظر پر اَڑتا ہو، نہ حق کو پہچان کر اس کے اختیار کرنے میں طبیعت پر بار محسوس کرتا ہو، نہ اس کا نفس ذاتی طمع پر جھک پڑتا ہو اور نہ بغیر پوری طرح چھان بین کئے ہوئے سرسری طور پر کسی معاملہ کو سمجھ لینے پر اکتفا کرتا ہو، شک و شبہ کے موقع پر قدم روک لیتا ہو، اور دلیل و حجت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہو، فریقین کی بحثا بحثی سے اکتا نہ جاتا ہو، معاملات کی تحقیق میں بڑے صبر و ضبط سے کام لیتا ہو، اور جب حقیقت آئینہ ہو جاتی ہو تو بے دھڑک فیصلہ کر دیتا ہو۔” (نہج البلاغہ، خط 53)
مذکورہ مطالب سے واضح ہوتا ہے کہ جب فیصلہ کرنے والا تجربے کار اور عادل ہوگا تو سماج میں امنیت قائم ہوگی۔
د۔ جاسوسی پر پابندی:
اسی سماج میں امن و امان قائم ہوتا ہے جہاں پر لوگوں کے راز محفوظ ہوں اور جاسوسی کے ذریعہ ان کے راز ظاہر نہ کئے جاتے ہوں۔ امیر المومنین علیہ السلام نے جناب مالک اشتر سے فرمایا: “تمہاری رعایا میں تم سے سب سے زیادہ دور اور سب سے زیادہ تمہیں ناپسند وہ ہونا چاہیے جو لوگوں کی عیب جوئی میں زیادہ لگا رہتا ہو، کیونکہ لوگوں میں عیب تو ہوتے ہی ہیں، حاکم کیلئے انتہائی شایان یہ ہے کہ ان پر پردہ ڈالے۔ لہٰذا جو عیب تمہاری نظروں سے اوجھل ہوں، انہیں نہ اچھالنا، کیونکہ تمہارا کام انہی عیبوں کو مٹانا ہے کہ جو تمہارے اوپر ظاہر ہوں اور جو چھپے ڈھکے ہوں ان کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے۔ اس لئے جہاں تک بن پڑے عیبوں کو چھپاؤ، تاکہ اللہ بھی تمہارے ان عیوب کی پردہ پوشی کرے جنہیں تم رعیت سے پوشیدہ رکھنا چاہتے ہو۔” (نہج البلاغہ، خط 53)
دور حاضر میں ٹیلی فون، میسج اور دوسرے تمام آلات کے ذریعے جو جاسوسی کا سلسلہ جاری ہے وہ نہ صرف سماج بلکہ گھر بھی نا امنی کا شکار ہے۔ نتیجہ میں کوئی کسی پر بھروسہ نہیں کرتا۔
4. تعلیم و تربیت
مفت تعلیم دینا لوگوں کا حق ہے۔حکومت علوی کا ایک افتخار یہ بھی ہے کہ 1400 سال پہلے امیر المومنین علیہ السلام نے لوگوں کی تعلیم پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا: “اے لوگو! ایک تو میرا تم پر حق ہے , اور ایک تمہارا مجھ پر حق ہے کہ میں تمہاری خیر خواہی پیشِ نظر رکھوں اور بیت المال سے تمہیں پورا پورا حصہ دوں اور تمہیں تعلیم دوں تاکہ تم جاہل نہ رہو اور اس طرح تمہیں تہذیب سکھاؤں۔” (نہج البلاغہ، خطبہ 34)
5۔ اجتماعی امداد
جناب مالک اشتر کے نام خط میں ایک نصیحت یہ بھی ہے کہ حکومت کی امدادی خدمات سے مستفید ہونے میں بچوں، بوڑھوں، ضرورت مندوں اور مجبوروں کو ترجیح دی جائے۔
امیرالمومنین علیہ السلام نے جناب مالک اشتر کو لکھا: “پھر خصوصیت کے ساتھ اللہ کا خوف کرنا پسماندہ و افتادہ طبقہ کے بارے میں جن کا کوئی سہارا نہیں ہوتا، وہ مسکینوں، محتاجوں، فقیروں اور معذوروں کا طبقہ ہے۔ ان میں سے کچھ تو ہاتھ پھیلا کر مانگنے والے ہوتے ہیں اور کچھ کی صورت سوال ہوتی ہے۔ اللہ کی خاطر اِن بے کسوں کے بارے میں اس کے اس حق کی حفاظت کرنا جس کا اس نے تمہیں ذمہ دار بنایا ہے۔ ان کیلئے ایک حصہ بیت المال سے معین کر دینا اور ایک حصہ ہر شہر کے اس غلہ میں سے دینا جو اسلامی غنیمت کی زمینوں سے حاصل ہوا ہو، کیوں کہ اس میں دور والوں کا اتنا ہی حصہ ہے جتنا نزدیک والوں کا ہے۔ اور تم ان سب کے حقوق کی نگہداشت کے ذمہ دار بنائے گئے ہو۔” (نہج البلاغہ، خط 53)