6d568dcd 72f2 4954 Bb0a 7de4a9c098eb 31

اصلاح اور ناقابلِ اصلاح

توصیف احمد وانی پدگام پوری ڈائریکٹر سید حسن منطقی اکیڈمی اونتی پورہ کشمیر انڈیا

انسان ساری عمر سیکھتا ہے۔ جب آتش جوان تھا اور ہمارے پیڈیاٹرکس کے استاد ڈاکٹر شاہد حمید دو آتشہ تھے، ہسپتال میں راونڈ کے دوران میں ہمیں کہا کرتے: You do not have to be defensive if you are not at fault. ( اگر آپ غلطی پر نہیں ہیں تو آپ کو اس کا دفاع کرنے کی ضرورت نہیں(۔ کس قدر خوب صورت بات ہے۔ خوب صورت لوگوں کے پاس خوب صورت باتیں ہوتی ہیں۔ اصل میں بات ہی تو خوب صورت ہوتی ہے۔ خوبصورت انسان وہ ہے جس کے پاس خوبصورت بات ہوتی ہے۔

دراصل اصلاح کی عمر اس وقت تک ہے جب تک کوئی اپنی غلطی کا دفاع کرنا نہیں سیکھ جاتا۔ غلطی کرنے اور غلط ہونے میں فرق ہے۔ غلطی کرنا اتنا بڑا جرم نہیں، جتنا غلط مقام پر کھڑ ے ہونا۔ غلط ہونا دراصل باطل ہونا ہے۔ باطل کا دفاع کرنے والا ، باطل کی وکالت کرنے والا، بہت جلد حق بات سننے کے حق سے محروم ہو جائے گا۔

وہ بھی کتنا بدنصیب ہے جو نصیحت کے جواب میں دلیل لے کر آ جائے۔ دراں حالیکہ نصیحت کا فایدہ ناصح کو نہیں ، نصیحت سننے والے کو پہنچتا ہے۔ سننے کے مقام پر کھڑا ہونے والا اگر سنانا شروع کردے تو یہ سفرِ معکوس ہے۔

ظاہر پرست کے کان میں گرانی ہوتی ہے— وہ باطن کے لیے گوش برآواز نہیں ہوتا۔ ظاہر اگر باطن کے سامنے مؤدب ہو جائے تو غلطی کے باوجود قبول کر لیا جاتا ہے۔ اگر اکڑ جائے تو اکھڑ جاتا ہے — جیسے درخت اپنی جڑوں سے اکھڑ جاتا ہے!!گویا بوترابی نسبت سے جدا ہونے کے بعد ، اب کی ربوبیت کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ نصیحت کی آواز ظاہر کو باطن کی طرف لے جانے کی ایک دعوت ہوتی ہے۔ ظاہر کے مقام پر ڈھٹائی سے کھڑا ہونے والا اس دعوت کو بڑی رعونت سے ردّ کر دیتا ہے۔

غلطی کے دفاع میں دلیل پیش کرنے والے کی دلیل قبول کر لی جاتی ہے، اسے قبول نہیں کیا جاتا۔ دلیل قبول کرنا مادّی اور عقلی پروٹوکول ہے۔ بندہ قبول کرنا بارگاہِ قلب میں طے پاتا ہے۔ قلب اپنے جہان میں سلطان ہے۔ اپنی غلطی کی دلیل فراہم کرنے والا بالعموم حق کے مقام پر ذلیل ہو کر نکلتا ہے۔ درحقیقت حق اپنی دلیل خود ہوتا ہے۔ اس لیے حق پر کھڑا ہونے والا اپنی ذات میں خود ایک دلیل ہے۔ اسے ردّ کرنا ، گویاحق کو ردّ کرنا ہے۔

دلیلوں کی اب کوئی حاجت نہیں
دلیلِ خدا آپﷺ کی ذات ہے

جو شخص اپنی غلطی کو غلطی نہ سمجھے ، اور کسی کے باور کروانے کے بعد بھی نہ سمجھے، اس پر کم از کم روحانی و اخلاقی ترقی کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ مادّی ترقی کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتے۔ مادّی ترقی ، مال و دولت میں بڑھوتری، کا تعلق علم و عقل کے ساتھ نہیں، مشیت کے فیصلوں کے ساتھ ہے۔ یہاں شیخ سعدیؒ کا ایک بہت خوب صورت قول ہے:” اگر اس دنیا میں رزق کا تعلق عقل کے ساتھ ہوتا تو بے وقوف لوگ بھوکے مر جاتے ہیں۔” ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے بڑے بڑے بیوقوفوں کو بڑی ترقی کرتے دیکھا ہے۔ بیوقوف کون ہوتا ہے: —جو خود کو سب سے بڑھ کر عقل مند سمجھتا ہے— جو دوسروں کی متانت اور خاموشی کو اُن کی کم عقلی پر محمول کرتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے شاید اس کی چرب زبانی سے لوگ مرعوب ہو گئے ہیں، حالانکہ ذی فہم لوگ اس سے جان چھڑانے کے لیے اُس کی بے سروپا دلیلیں سن لیتے ہیں۔ بہرطور بیوقوف وہی ہے جو دوسروں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کوشش میں وہ مزید بیوقوف بن جاتا ہے۔ بیوقوف کی بیوقوفی اگر مزید سے مزید تر ہو جائے تو اُسے احمق کہتے ہیں۔ احمق کی مسیحائی جنابِ مسیحؑ بھی نہیں کر سکتے۔ اس بابت مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ ایک حکایت سنایا کرتے کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے دیکھا کہ حضرت عیسیٰؑ بھاگتے چلے جا رہے ہیں۔ اس نے پوچھا: “آپؑ عیسیٰ ہی ہیں نا؟” فرمایا: “ہاں!” پوچھنے والے نے پھر پوچھا: “آپ وہی ہیں جو مردے کو زندہ کر دیتے ہیں، اندھے کو بینا کر دیتے ہیں، کوڑھی کو شفا دے دیتے ہیں؟” فرمایا: “ہاں! میں وہی ہوں۔” اس شخص نے پوچھا: “آپ کہاں بھاگے چلے جا رہے ہیں؟” حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا: “وہ دیکھو! پیچھے ایک احمق آ رہا ہے۔ میں اس سے بچ کر بھاگ رہا ہوں، تم بھی بھاگو۔” اُس نے کہا: “حضرت! آپؑ اسے بھی ٹھیک کر دیں۔” حضرت عیسیٰؑ نے کہا: “وہ احمق ہے، اسے میرے دم سے شفا نہیں مل سکتی۔”

قرآن کو عالمین کے لیے ذکر بھی کہا گیا ہے۔ قرآن کو نصیحت بھی کہا گیا ہے۔ تمام الہامی کتابیں پندو نصائح سے بھری ہوئی ہیں۔ ان نصائح سے منہ موڑنے والے ، انہیں پرانے زمانے کی کہانیاں کہنے والے، جہالت سے لت پت ہیں۔ ابوجہل کے سامنے رسالت مآبؐ کی شمسِ بازغہ شخصیت تھی۔ نورِ مصطفویؐ کے سامنے شرارِ بولہبی کے دلائل کچھ کام نہ آئے— وہ ابوالحکم سے ابوجہل ہو گیا۔

ذرّے میں صحرا دیکھنے والے ، قطرے میں قلزم کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔”کشف المحجوب“ میں سیّدِ ہجویر حضرت علی بن عثمان الجلابی مقلّب بہ داتا گنج بخشؒ ، امام جعفر صادق کی سیرت کے باب میں قلمطراز ہیں کہ آپؑ نے فرمایا:— ” توبہ کے بغیر عبادت درست نہیں۔ پس ! اللہ نے بندوں پر توبہ کو عبادت سے پہلے رکھا ہے۔“ سیدِ ہجویر اس قول کی وضاحت میں فرماتے ہیں: —”چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: التّـائبونَ العابدونَ (/۱۱۲ التوبه)—توبہ کرنے والے ، اور عبادت کرنے والے— یعنی اللہ تعالیٰ نے توبہ کو عبادت پر مقدم رکھا ہے ، کیونکہ توبہ مقامات کی ابتدا ہے اور عبدیت مقامات کی انتہا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جب اپنے خطاکار بندوں کا ذکر کیا تو یوں فرمایا: وتوبـوا الى اللّـه جمیعـاً (/۳۱النّور)—تم سب اللہ کے حضور توبہ کرو— اور جب اپنے عبدِ خاص ( عبدہ) رسول ﷺ کا ذکر کیا تو یوں فرمایا: فـأوْحی إلى عَبْـدِه مـا أوحـی (/۱۰النّجم)—پس! اپنے بندے پر وحی کی ، جو بھی کی۔“

غلطی ابلیس سے بھی ہوئی اور غلطی کا ارتکاب جنابِ آدمؑ سے بھی ہوا— اس فرق کے ساتھ کہ ابلیس نے توبہ نہیں کی بلکہ اپنی غلطی کی توجیہہ اور دلیل پیش کی، پھر اپنی دلیل ثابت کرنے کے لیے ایک اور دلیل دینے کی کوشش کی— خود کو اعلیٰ کہا— سبحان ربی الاعلیٰ نہ کہہ سکا—اپنے اغوا کی تہمت اپنے رب پر دھر دی۔ پس ! اسی دلیل کی بنا پر وہ ذلیل ہو گیا۔ جنابِ آدمؑ نے یک لخت اپنی غلطی کا اعتراف کیا، وفورِ ندامت سے بھیگ کرتوبہ کے طالب ہوئے ، نقص کو اپنی طرف منسوب کیا اور کمال کا انتساب اپنے رب کے نام کیا۔ پس! غلطی کے ارتکاب سے اعتراف تک کے سفر نے انہیں خلیفتۃ اللہ بنا دیا ۔ آدم معروف ہوئے ، ابلیس مردود ہوا۔ آدمؑ دُور ہو کر بھی قریب ہو گئے، ابلیس قریب رہ کر دُور ہو گیا۔

غلطی کا دفاع کرنے والا ابلیسی طرزِ فکر پر چلتا ہے۔ یہ طرزِ فکر فرعون ، قارون اور ہامان ایسے کردار بناتی ہے۔ فرعون وہ متکبر انسان ہے جس کی طغیانی کو صرف نیل کی شوریدہ لہریں ہی غرق کر تی ہیں۔ قارون دولت کو مسبب الاسباب سمجھنے والا شخص ہے۔ قارونی طرزِ فکر دولت کے زور سے انسانوں کو قابلِ خرید و فروخت مال سمجھتی ہے۔ ہامان مادّی اسباب پر بھروسہ کرنے والا ایک ماہر فن وحرفت ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اسباب کی کوئی بلند عمارت موسیٰؑ کے رب سے ملاقات کا سبب بن سکتی ہے۔

ندامت کو توبہ کی شاخ کہا گیا ہے۔ ندامت زدہ اپنے اندر ملامت زدہ ہو تا ہے۔ اہلِ ملامت باطن میں سرفراز کیے جاتے ہیں۔ اہلِ ظاہر اُن کی ندامت اور ملامت کو دیکھ کر محجوب سے محجوب تر ہو جاتے ہیں — اور اہلِ باطن محبوب سے محبوب تر!! مخلوق کی نظر میں حقیر، خالق کی نگاہ میں فقیر ہوتا ہے۔ فقیر— اللہ والا ہوتا ہے۔ مخلوق کو جب خالق کا قرب اور معرفت درکار ہوتی ہے تو وہ کسی اللہ والے کے پاس پہنچتے ہیں—عجب راز ہے!! اللہ کا گھر بیت اللہ ہے— اور اللہ مومن کے دل میں رہتا ہے— اب مومن کے دل کو بیت اللہ کہیں گے— “قلب المومن عرش اللہ” کعبہ ظاہر ہے— قلب باطن! گویا ایک بیدار دل ہی ظاہر اور باطن کا سنگم ہوتاہے۔ اہلِ باطن اسی سنگم پر ملتے ہیں اور متجسس روحوں کو اپنی سنگت کا شرف عطا کرتے ہیں۔ موسیٰؑ اور خضرؑ کی ملاقات کا دل پذیر واقعہ ایسی ہی سنگت کی ایک خوب صورت داستان ہے۔ یہ سنگت فراق کے اس موڑ پر اختتام پذیر ہو تی ہے جہاں اعتراض نما سوال اور سوال نما اعتراض وارد ہوتا ہے۔ اصول طے پایا کہ تین بار سے زیادہ مہلت نہیں ملے گی۔
واصفؔ یار دلیلیں پئے گیا
توں ویں پیچھے ہٹ دا جا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں