0

اربعین اور احساس ذمہ داری

تحریر: حافظ سید شرافت موسوی

چہلم سے جو ہمیں درس لینا چاہیے وہ یہ ہے کہ شہادت کی حقیقت کو دشمنوں کی تبلیغات کے طوفان کے مقابلے میں زندہ رکھنا ہے۔ جس طرح دشمنوں نے جنگ کے خلاف بھر پور پروپیگنڈا کیا تھا۔ وہ جنگ جو عوام کی عزت اور حیثیت اور ملک و اسلام کی حفاظت اور ان کے دفاع کی خاطر تھی۔

سید الشہدا کا عظیم الشان چہلم، اس دوران مومنین خصوصاً عراقی مومنین کا جذبہ خدمت عصر حاضر کا ایک معجزہ ہیں ۔

ایسا کیوں نہ ہو،حسین جیسے عظیم رہبر وپیشوا نے اپنی لازوال قربانی کے ذریعے انسانیت کو ایک بار پھر حیات نو عطا کی تھی ۔

اربعین انسانی تہذیب وتمدن کا آئینہ دار ہے جو بقائے اور شرف انسانی کا قیمتی ترین سرمایہ ہے۔اس لیے ہر اس شخص کا(جو حسین سے عشق ومودت رکھتا ہو) اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ اربعین کی اہمیت کو سمجھے۔امام حسن عسکری(ع) نے ایک حدیث میں “مومن” کی پانچ علامات کا ذکر کیا ہے اور زیارت اربعین کو ان میں سے ایک قرار دیا ہے۔علامات المومن خمس : صلاۃ احدی و خمسین ۔۔۔ و زیارۃ الاربعین[١]

۵۱رکعت نماز ادا کرنا ، زیارت اربعین، دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا ، نماز میں پیشانی کو خاک پر رکھنا اور نماز میں “بسم اللہ”کو بلند آواز سے پڑھنا۔

ہر چیز کی اہمیت جتنی زیادہ ہوتی ہے اس کی معرفت بھی اتنی ہی ضروری ہوتی ہے۔

ا عاشقان اربعین میں ایک عجیب وحیرت انگیز ولولہ ،عشق اور جذبہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ہزاروں لوگ زائرین کی خدمت کررہے ہیں ، گھروں میں دعوتیں دی جارہی ہیں،کروڑوں اربوں نذر ونیاز پر خرچ کررہے ہیں ۔ کھانے کا انتظام ہورہاہے ، زائرین کے استراحت کا اہتمام ہے،خواتین سے لے کر جوان،بوڑھے حتی کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی کاروان عشق کی خدمت میں سب کچھ لٹا رہے ہیں۔

(شہید کربلا کا ایک بیٹا شام کے زندان سے چھوٹ کر سرزمین کربلا کی جانب گامزن ہے۔ ایک بہن اپنے بھائی کے چہلم کے لیے کربلا پہنچ رہی ہے ۔ایک قافلہ ہے جو دھیرے دھیرے کربلا کی طرف رواں دواں ہے ۔) اسی کاروانِ عشق کے ساتھ ہم بھی آنکھوں میں اشکوں کا دریا لیے، سوگوار فضاؤں میں لبیک یاحسین،یامظلوم حسین کی صدا بلند کرتے ہوئے کربلا پہنچ رہے ہیں۔

ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ اربعین تجدید عہد ،عہد وفا اور ذمہ داریاں ادا کرنے کے جذبے کا نام ہے۔

اربعین حسینی جہاں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کابہترین موقع ہےوہاں اس بات کا سبب بھی ہے کہ ہم واقعہ کربلا کے پیش نظر یہ بھی سمجھیں کہ آج کی کربلا میں ہم کہاں کھڑے ہیں اور سیدالشہداء کا ہم سے مطالبہ کیا ہے؟

واقعہ کربلا ایک ابدی تحریک ہے،جو اپنے محرکات و مقاصد کے پیش نظر اسلام کی طویل تاریخ میں حق کے متلاشی افراد کے لیے ایک زندہ و جاوید درس گاہ ہے۔ اس کے وقوع سے لے کر اب تک ہر ایک نے اپنے اپنے حساب سے اس سے مثبت نتائج اخذ کئے ہیں۔جس قدر لوگ کربلا کی پناہ میں آتے گئے، اتنا ہی ان کے عزم میں اضافہ ہوتا گیا، ان کا وقار بڑھتا گیا اور ان کی شان و شوکت ہمہ گیر ہوتی چلی گئی۔اس کی ایک مثال امام حسین علیہ السلام کا چہلم ہے۔یہ نہ صرف ہر سال گزرے ہوئے سال سے زیادہ عظمت کے ساتھ منعقد ہوتا ہے بلکہ اربعین میں لوگ پہلے سے زیادہ عزم و ہمت کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کے حضور تجدید بیعت کرتے ہوئے پہلے سے زیادہ وقار کے ساتھ دنیا کے سامنے اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہر ایک کے اندر ایک ذمہ دار عزادار ہونے کا احساس جاگتا ہے۔امام خمینی (رہ) سے لے کر علامہ طباطبائی و شہید مطہری جیسے مفکرین اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ سیدالشہداء علیہ السلام نے جب یزیدی حکومت کا حد درجہ انحراف دیکھا تو اس کے مقابلے میں آپ کا ردعمل حقیقت میں اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ آپ نے اپنی شرعی ذمہ داری کوتشخیص دیتے ہوئے نہ صرف یہ کہ بروقت ردعمل کا اظہار کیا بلکہ کوشش کی کہ دوسرے لوگ بھی اپنی شرعی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ان کی ادائیگی کے لئے آگے قدم بڑھائیں۔[٢]

امام خمینی (رہ) نے تو بہت ہی واضح الفاظ میں بیان کر دیا کہ سیدالشہداء علیہ السلام نے جو کچھ کیا، وہ اپنی ذمہ داری پر عمل تھا، آپ اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا چاہتے تھے اور آپ نے اپنی شرعی ذمہ داری پر عمل بھی کیا۔[٣]امام خمینی (رہ) نے یزید کے خلاف امام حسین علیہ السلام کے قیام کو آپ کی شرعی ذمہ داری کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح امام علیہ السلام یزید جیسے ظالم کے سامنے کھڑے ہونے کو اپنا فریضہ سمجھتے تھے ، ویسے ہی ہمیں بھی اپنے وقت کے یزیدوں کو پہچانتے ہوئے ان کے مقابل اٹھ کھڑے ہونے کا عزم رکھنا چاہیے۔ چونکہ امام حسین علیہ السلام کی سیرت تمام مسلمانوں خاص طور پر شیعیان حیدر کرار کے لئے نمونہ عمل ہےلہذا آپ کی سیرت کو دیکھ کر ہر انسان کے اندر احساس ذمہ داری جاگنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ یزید صرف 61 ہجری میں تھا اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے امام حسین علیہ السلام کھڑے ہوگئے اور بات ختم ہوگئی۔

ہر دور کی حسینیت کا تقاضا ہے کہ زمانے کی یزیدیت کے خلاف اٹھے اور اسے ذلیل و رسوا کرتے ہوئے پرچم حق بلند کرے۔یہاں پر جو بات اہم ہے، وہ یہ ہے کہ انسان کے وجود کے اندر ذمہ داری کا احساس بیدار ہو۔جب انسان کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے تو وہ ہر کام سے پہلے یہ دیکھتا ہے کہ اس کا کام مرضی الہیٰ کے مطابق ہے یا نہیں؟ وہ تمام تر شرعی جوانب کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔ وہ زندگی کے امور میں اپنی ذات کو لے کر نہیں سوچتا بلکہ خدا کو محور قرار ے کر سوچتا ہے اور خدا محوری کا جذبہ ہی کسی عمل کے ترک یا اس کی انجام دہی کا محرک قرار پاتا ہے۔[٤]

امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اسی محرک کو مختلف مقامات پر بیان کرتے ہوئے اس بات کی کوشش کی ہے کہ امام کی شہادت کو آپ کے احساس ذمہ داری کے ساتھ جوڑ کر موجودہ دور میں شہادتوں کے محرک کی وضاحت کریں۔ تاکہ ظلم و ستم کے سامنے سوئے ہوئے ضمیروں کو بیدار کریں۔ا ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں:

“سیدالشہداء نے خود پر لازم جانا کہ اٹھ کھڑے ہوں اور شہادت کے درجے پر فائز ہوں اور یوں ، امیر شام اور اس کے بیٹے کے آثار کو صفحہ روزگار سے مٹا ڈالیں۔[٥]

اسی احساس ذمہ داری کو ایک اور مقام پر امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اس انداز سے بیان کرتے ہیں:

“سیدالشہداء نے خود پر ضروری جانا کہ اس فاسد طاقت کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو جائیں۔ آپ نے واجب جانا کہ جہاں ضروری ہو وہاں قیام کریں اور اپنا لہو دیں،تاکہ یزید کا پرچم سرنگوں ہوسکے۔ آپ نے ایسا ہی کیا اور سب کچھ ختم ہوگیا۔[٦]جب انسان حق کی سربلندی کے لئے، احیائے دین کے لئے اٹھ کھڑا ہو ، نفاذ عدالت کے لئے کھڑا ہو ، بدعتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا ہو ، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار و برکات کو محو ہونے سے بچانے کے لئے اٹھے، ولایت کے دفاع کی خاطر اٹھے تو یقیناً اس کے سامنے مشکلات بھی آئیں گی اور پریشانیاں بھی، لیکن جو کچھ بھی اس کے مقدس ہدف کے تحت اسے ملے گا،وہ سب اس بات پر موقوف ہے کہ وہ کسی بھی بات کی پراہ کیے بغیر اپنی ذمہ داری ادا کرے اور بس۔ ایسے میں وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ زمانہ خراب ہے، ماحول سازگار نہیں ہے، ہمارا کیا ہوگا وغیرہ ۔

رہبر انقلاب اسلامی اسی سلسلے میں اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں:

اگر امام حسین علیہ السلام اپنے سامنے آنے والے دشوار حالات اور تلخ حوادث کو عام لوگوں کی نظر سے دیکھتے، مثلاً جناب علی اصغر (ع) کی شہادت، اہل حرم کی اسیری، بچوں کی تشنگی، جوانوں کا شہادت، ان تمام چیزوں کو شریعت پر عمل کرنے والے عام انسان کی طرح دیکھتے تو آپ کو اپنی حقیقی ی ذمہ داری کو بھلا دینا چاہیے تھا اور قدم قدم پر “الضرورات تبیح المحظورات” کے تحت پیچھے کی طرف قدم بڑھانا چاہیے تھا اور یہ کہنا چاہیے تھا کہ یہ سب میری ذمہ داری نہیں ۔ لیکن امام علیہ السلام نے سخت ترین حالات میں بھی اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک اپنی شرعی ذمہ داری کی ادائیگی پر اصرار کیا کیونکہ انسان کے عقیدے اور دین کی اہمیت اس کی آبرو، مال، جان اور ناموس سے کہیں بڑھ کر ہے۔اس قسم کی صورتحال میں اپنی دینی ذمہ داری کی ادائیگی کا احساس اور اس سلسلے میں آپ کا موقف آپ کی روحانی طاقت اور دینی بصیرت سے مربوط ہے۔[٧]

شہید کا کردار ہمارے لیے در س ہے۔ لہذا ہم اربعین اس طرح منعقد کریں تاکہ شہادت و مظلومیت کے بارے میں عصرحاضر اور آنے والی نسلیں آگاہ ہوسکیں۔ شہید باعث درس اور وہ نمونہ عمل ہے جس کا خون تاریخ کے ہر دور میں جوش مارتا اور بہتا چلا جاتا ہے۔ کسی قوم کی مظلومیت صرف اس وقت ملتوں کے ستم کشیدہ زخمی پیکر کو مرہم لگا کر ٹھیک کر سکتی ہے جب اس کی مظلومیت فریاد بن جائے اور اس مظلومیت کی آواز دوسرے انسانوں کے کانوں تک پہنچے۔ یہی وجہ ہے کہ آج چھوٹی بڑی طاقتوں نے شور و غل مچا رکھا ہے تا کہ ہماری آواز بلند نہ ہونے پائے۔ اسی وجہ سے وہ تیار ہیں کہ چاہے جتنا زیادہ سرمایہ خرچ ہو جائے مگر دنیا یہ نہ سمجھ پائے کہ جنگ کیوں شروع کی گئی اور کس محرک کے تحت چھیڑی گئی؟ اس دور میں بھی استعماری طاقتیں آمادہ تھیں کہ چاہے جتنا سرمایہ لگ جائے مگر خون حسین (ع) اور شہادت عاشوراء کی یاد ایک درس بن کر اس زمانے کے لوگوں اور بعد کی ملتوں کے اذہان میں نہ بیٹھنے پائے۔ وہ ابتداء میں نہیں سمجھ پائے کہ مسئلہ کتنا با عظمت ہے مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا لوگ زیادہ سے زیادہ سمجھنے لگے۔

چہلم سے جو ہمیں درس لینا چاہیے وہ یہ ہے کہ شہادت کی حقیقت کو دشمنوں کی تبلیغات کے طوفان کے مقابلے میں زندہ رکھنا ہے۔ جس طرح دشمنوں نے جنگ کے خلاف بھر پور پروپیگنڈا کیا تھا۔ وہ جنگ جو عوام کی عزت اور حیثیت اور ملک و اسلام کی حفاظت اور ان کے دفاع کی خاطر تھی۔

حوالہ جات:

[1!مجلسی ، بحار الانوار ، ج 98

[2! سید رضا موسیٰ، نہضت امام خمینی جلد ۱ ص 73

[3!صحیفہ نور جلد ۴ ص 16

[4! ایضاً۔ جلد ۱ ص 77

[5!صحیفہ نور ، جلد ۳ ص 182

[6! صحیفہ نور جلد ۱۳ ص 158

[7! سید علی خامنہ ای، امانداران عاشورا و درسہا و عبرتہای کربلا۔69

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں