اچانک میں نے پیچھے سے ایک قدم کی آواز سنی جس نے میرے خوف اور ہراس میں اضافہ کر دیا۔ میں نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو ایک سید عربی تھے جو بدوؤں کے لباس میں تھے۔ وہ میرے قریب آئے اور فصیح زبان میں کہا: اے سید! السلام علیکم… میرا خوف اور ہراس مکمل طور پر ختم ہو گیا اور مجھے اطمینان اور سکون قلب حاصل ہوا۔
قطب عالم امکان حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے ملاقات تو کئی علماء اور صلحاء نے کی ہے، ایسی ہی ایک ملاقات دنیائے تشیع کے مرجع تقلید مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی کی بھی ہے جو ان کی وفات کے بعد لوگوں میں عام ہوا۔ انہوں نے اپنے خاص اور قریبی سے تھے کہہ رکھا تھا کہ جب تک وہ با حیات ہیں، اس واقعے کا ذکر کسی کے سامنے نہ کریں۔
اس زیارت اور ملاقات کی کیفیت کچھ یوں بیان کی گئی ہے:
نجف اشرف میں طالبعلمی کے زمانے میں، میں اپنے مولا بقية الله الاعظم، عجل الله تعالی فرجہ الشریف کے دیدار کا بے حد مشتاق تھا۔ میں نے خود سے عہد کیا کہ چالیس بدھ کی شب پیدل مسجد سہلہ جاؤں گا، اس نیت سے کہ آقا صاحب الامر (علیہ السلام) کے جمال مبارک کا دیدار کروں اور اس عظیم سعادت کو حاصل کر سکوں۔
میں نے 35 یا 36 بدھ مسلسل یہ سلسلہ جاری رکھا، اتفاقاً ایک رات میرا نجف سے مسجد سہلہ کی جانب جانے میں تاخیر کا ہو گئی اور موسم ابر آلود اور بارش والا تھا۔ رات کا موقع تھا اور مجھ پر خوف و ہراس طاری ہو گیا تھا، خاص طور پر ڈاکوؤں اور چوروں کی کثرت کی وجہ سے میں بہت ڈر رہا تھا، اچانک میں نے پیچھے سے ایک قدم کی آواز سنی جس نے میرے خوف اور ہراس میں مزید اضافہ کر دیا۔ میں نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو ایک عربی سید کو بدووں کے لباس میں پایا۔ وہ میرے قریب آیا اور فصیح زبان میں کہا: اے سید! السلام علیکم۔
میرا خوف اور ہراس مکمل طور پر ختم ہو گیا اور مجھے اطمینان اور سکون قلب حاصل ہوا۔ یہ بات حیرت انگیز تھی کہ یہ شخص شدید تاریکی میں میرے سیادت کا کیسے علم رکھتا تھا، میں اس وقت اس بات سے بے خبر تھا۔ بہر حال، ہم باتیں کرتے ہوئے چل رہے تھے۔ اس نے مجھ سے پوچھا:
تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: مسجد سہلہ۔ اس نے پھر پوچھا: کس غرض سے؟ میں نے کہا: ولی عصر (علیہ السلام) کی زیارت اور ملاث کی نیت سے۔
تھوڑی دور چلنے کے بعد ہم مسجد زید بن صوحان پہنچے جو مسجد سہلہ کے قریب ایک چھوٹی سی مسجد ہے۔ ہم مسجد کے اندر گئے اور نماز پڑھی۔ دعا کے بعد، جسے سید نے پڑھا، ایسا لگا جیسے در و دیوار بھی اس کے ساتھ دعا پڑھ رہے ہوں۔ مجھے اپنے اندر ایک عجیب سی تبدیلی محسوس ہوئی جس کا بیان میں نہیں کر سکتا۔
دعا کے بعد سید نے کہا: اے سید، تم بھوکے ہو، اچھا ہوتا کہ تم بھی ہمارے ساتھ کھانا کھا لیتے۔
پھر اس نے اپنی عبا کے نیچے سے ایک دستراخان نکالا جس پر تازہ سبز کھیرے اور تین روٹیاں تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی باغ سے توڑ کر لائے ہوں، حالانکہ اس وقت سخت سردی کا موسم تھا۔ میں اس بات پر غور نہیں کر پایا کہ یہ بزرگ اس موسم میں یہ تازہ سبز کھیرے کہاں سے لائے ہیں۔ میں نے آقا کے حکم کے مطابق کھانا کھایا۔
پھر اس نے کہا: اٹھو، ہم مسجد سہلہ چلیں۔
ہم مسجد کے اندر گئے، وہ سید مختلف مقامات پر اعمال میں مشغول ہو گئے اور میں بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے اپنے فرائض انجام دے رہا تھا۔ میں نے مغرب اور عشاء کی نماز آقا کی اقتداء میں پڑھی اور مجھے اس بات کا احساس نہیں تھا کہ یہ آقا کون ہیں؟
اعمال کے ختم ہونے کے بعد، اس بزرگوار نے فرمایا:
اے سید، کیا تم دوسروں کی طرح مسجد سہلہ کے اعمال کے بعد مسجد کوفہ جاتے ہو یا یہیں رکتے ہو؟
میں نے کہا: میں یہیں رکتا ہوں۔ پھر ہم مسجد کے وسط میں مقام امام صادق (علیہ السلام) پر بیٹھ گئے۔
میں نے سید سے کہا: کیا آپ چائے یا قہوہ یا تمباکو پسند کریں گے، میں آپ کے لئے تیار کر دوں؟ اس سید نے جامع کلام میں جواب دیا: یہ چیزیں زندگی کے فضول امور میں سے ہیں اور ہم ان فضولات چیزوں سے دور ہیں۔
یہ کلام میرے وجود کی گہرائیوں میں اتر گیا، جب بھی مجھے یاد آتا ہے تو میرا وجود کانپ اٹھتا ہے۔ بہر حال، نشست قریب دو گھنٹے تک جاری رہی اور اس دوران کئی باتوں کا تبادلہ ہوا۔
میں نے کہا: میں نہیں جانتا کہ کیا میرے والدین، اساتذہ، اور ذوی الحقوق مجھ سے راضی ہیں یا نہیں؟ انہوں نے فرمایا: وہ سب تم سے راضی ہیں اور تمہارے لیے دعا کرتے ہیں۔
میں نے اپنے لیے دعا کی درخواست کی کہ میں تالیف و تصنیف میں کامیاب ہو جاؤں۔ انہوں نے دعا فرمائی۔
یہاں بہت سے باتیں ہیں جن کی تفصیل بیان کرنے کا موقع نہیں ہے۔ پھر میں مسجد سے باہر جانے کے لیے اٹھا، کیونکہ مجھے ایک ضرورت پیش آئی تھی۔ میں حوض کے پاس آیا جو مسجد سے باہر نکلنے سے پہلے راستے میں واقع تھا۔ میرے ذہن میں آیا کہ یہ کون سی رات تھی اور یہ سید عرب کون ہے جو اتنا فضیلت والا ہے؟ کہیں یہی ہمارا مقصود اور معشوق تو نہیں؟
جیسے ہی میرے ذہن میں یہ خیال آیا، میں گھبرا کر واپس مڑا، لیکن وہ سید نظر نہیں آئے اور مسجد میں کوئی نہیں تھا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے آقا کی زیارت کی تھی اور میں غافل تھا کہ یہی ہمارے آقا اور مولا ہیں۔ میں رونے لگا اور دیوانے کی طرح مسجد کے ارد گرد روتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی، جیسے کوئی عاشق وصال کے بعد ہجران میں مبتلا ہو جائے۔
یہ تھی اس رات کی تفصیل کا خلاصہ، جب بھی مجھے وہ رات یاد آتی ہے تو میں حیرت زدہ ہو جاتا ہوں۔
منبع: کتاب شیفتگان حضرت مهدی عج، جلد ۲