186

آغا سید سخاوت حسین الموسوی رضوان اللہ تعالٰی علیہ

آغا سید سخاوت حسین الموسوی رضوان اللہ تعالٰی علیہ

مَوتُ العَالِمِ مَوتُ العَالَم

آءے تھے ہم مثل بلبل سیر گلشن کرچلے

لےلومالی باغ اپنا ہم تو اپنے گھر چلے

تحریر: اختر عباس

یہ خبر انتہاءی دلدوز تھی کہ وادی کے نامور مہشور معروف ،ہردلعزیز ،عالم باعمل ،متقی و پرہیزگار عالم دین الحاج آغا سید سخاوت حسین الموسوی (رض)ماہ شعبان المعظم اور ماہ رمضان المبارک ۲۰۲۳ درمیانی رات میں پوری ملت مسلمہ خصوصا ملت تشیع کو داغ مفارقت دے کر چلے گءے۔مرحوم تعارف کے محتاج نہیں ہے بلکہ انہوں نے وادی اور بیرونی وادی دور دراز علاقوں میں تبلیغ دین کے سلسلے میں اپنی خدمات انجام دءے۔مرحوم نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ حصول علم دین میں صرف کی جس دوران انہوں نے بنارس اور ایران میں تعلیم حاصل کرنے کا موقعہ ملا ۔مرحوم کو سماجیات پر کافی دسترس حاصل تھی جسکی وجہ سے انہوں نے ۴۰۰ صفات پر مشتمل کتاب بھی تحریر کی تھی لیکن بد قسمتی سے وہ شاءع نہ ہوسکی ۔انہوں نے دوران حیات بحثیت مبلغ دین علوم اہلبیت ؑ کو گھر گھر پہنچانے کےلءے من و عن کوشش کی جس میں وہ بہت حد تک سفل بھی رہے ،محرم الحرام کے دوران مرحوم کی مصروفیات میں اور زیادہ اضافہ ہورہاتھا جس کو وہ بخوبی انجام دیتے رہتے تھے اور مسلسل کءی مجالس پڑھ کر ذکر محمد وآل محمد ﷺ سے لوگوں اور محبان اہلبیت ؑ کو شر شار کرتے رہے۔وادی میں پچھلے تیس برسوں کے نامساید حالات کے دوران میں بھی انہوں نے اپنے فراءض سے منہ نہیں موڈا بلکہ ہر ضرر کو سہہ کر انہوں نے عوامی جلسوں سے خظاب کرکے دیگر ادیان کے کوگوں کو بھی متاثر کیا۔ان کے خطبات ،مواعظہ حسنات اور درس و تدریس اپنی مثال آپ ہے جن کی بدولت وہ ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ وجاوید رہینگے۔محرم الحرام ہو یا دیگر مہینے وہ آباءی گاوں اور دیگر دیہات میں مجالس حسینی ؑ کو اپنے بیان سے رونق بخشتے رہےمولانا صاحبؒ کا نورانی چہرہ اور شعلہ بیانی اکثر لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتی تھی تھےوہ ہر وقت سوئی ہوئی قوم کو جگانا اپنی ذمہ داری اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا ۔ آپ نے اپنی پوری زندگی دین قائم کرنے کی جدوجہد ۔ واقعتاً ملتِ اسلامیہ اور تشیع ایک عظیم عالم دین سے محروم ہوگئی ۔گاوں میں انہوں نے بحثیت امام جمعہ و جماعت بھی فراءض انجام دیءے جسکے لءے پوری بستی ان کی مرہون منت ہے ۔مرحوم اپنے والد بزرگوار مرحوم سید محمد رضا صاحب کی طرح گاوں میں مومنین کے انتقال پر ان کے کفن دفن اور نماز جنازوں میں شرکت کرتے رہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ خاندان سادات موسویہ آباءی گاوں کی مختلف خدمات میں ہمیشہ بنا کسی عضر کے پیش پیش رہے ۔مولانا صاحب کو اگر چہ کءی سال پہلے سےصحت سے متعلق شکایتیں رہی پھر بھی انہوں نے دینی خدمات کو انجام دینے میں کویی کوتاہی نہیں کی۔یہ بات سچ ہے کہ عالم دین کو زندگی میں کءی دشواریوں کاسامنا کرنا پڑرہا ہے جس میں دن و رات مطالعہ کرنا،فاقہ کشی ،مالی دشواریاں ،نءی تحقیقات اور سماجی معاملات سرفہرست ہے ۔ان سب مشکلات کے باوجود انسان کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تک تبلیغ دین کےلءے جانا واقعی کمال ہوتا ہے ۔آغا صاحب ان تما م کمالات کے مالک تھے جو ایک عالم دین میں ہونی چاہءے۔ آپ گزشتہ کئی مہینوں سے علیل تھے۔اور عارضہ قلب کی شکایت تھٰی جس کےلءے انہیں پہلے علاج معالجہ کے خاطر وادی کے شفاخانوں میں داخل کیا گیا جہاں انہیں معمولی راحت محسوس ہوءی اور بعد میں انہیں بیورن یوٹی دل کا آپریشن کرنا پڑا جہاں سے وہ گھر واپس لاءے گءے اور چند دن کے بعد طبیعت کچھ زیادہ خراب ہوءی اور اسے دوبارہ مقامی ہسپتال لےجانا پڑا جہاں انہوں نےبدھ کی شام شب جمعرات ۲۹ ماہ شعبان ۲۲ مارچ ۲۰۲۳ء ی کو داع اجل کو لبیک کہاانتقال کی خبرکے بعد آپ کے شاگرد، عقیدت مند، اور عوام زار و قطار رونے لگے۔آپ کی وفات حسرت آیات سے تمام مسلمانوں اور خصوصا ملت تشیع کو شدید ترین صدمہ پہنچا۔بے شک ان کا اس دارالفانی سے جانا ابھی قبل از وقت تھا لیکن ازن الہٰی کے سامنے ہر ایک کو اپنا سر خم تسلیم کرنا پڑتا ہے ۔آغا صاحب کے انتقال سے واقعی قوم کو ناقابل فراموش صدمہ ہوا اور وہ خلا پیدا ہوا جس سے پُر کرنا محال ہے ۔ہماری طرف سے آغا صاحب کو بہترین خراج عقیدت یہی ہوگا کہ ہم ان کے محافل و مجالس میں پڑھنے والے مواعظہ حسنات کو دل میں جگہ دے کر ان کلمات پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں