لکھنؤ//لکھنؤ مجلس علمائے ہند سمیت شہر کی تقریباً تیس تنظیموں کی جانب سے لکھنؤ کے تاریخی چھوٹے امام باڑے میں ’آئیے جانیں دہشت گردی کیاہے ؟‘ کے موضوع پر عظیم الشان سیمینار کا انعقاد ہواجس میں بلاتفریق مذہب و ملت علمااور دانشوروں نے شرکت کی ۔اس سیمینارکا ایک مقصد یہ تھاکہ جس طرح ہماراقومی میڈیا مزاحمتی تنظیموں کو اسرائیل اور امریکہ کے پروپیگنڈہ کا شکار ہوکر دہشت گرد کہہ رہاہے ،اس کی تردید کی جائے نیز عالمی اصولوں کی روشنی میں دہشت گردی کی وضاحت کی جائے تاکہ دنیا کو معلوم ہوسکے کہ حقیقی دہشت گردی کیاہے اور کون اس کو فروغ دے رہاہے۔پروگرام میں خاص طورسید مقاومت سید حسن نصراللہ اور دیگر شہداء کو قومی میڈیا کے ذریعہ دہشت گردکہنے پر سخت احتجاج کیاگیا۔
اس سیمینار کے انعقاد میں تقریباً تیس اداروں نے حصہ لیا جن میں مجلس علمائے ہند،شیعہ علما اسمبلی ،شیعہ پرسنل لاءبورڈ، عین الحیات ٹرسٹ ،ادارہ اصلاح ،ہدایت فائونڈیشن ،طہ فائونڈیشن ،تنزیل اکادمی ،المومل فائونڈیشن ،نبافائونڈیشن ، ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی،فلاح المومنین ٹرسٹ،ولایت ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ ،اور دیگر قومی و سماجی اداروں نے اپنا قیمتی تعاون پیش کیا۔
سیمینار کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا۔اس کے بعد ایڈوکیٹ محمد حیدر رضوی کا پیغام نشر کیاگیاجس میں انہوں نے دہشت گردی کی وضاحت کی ۔پہلی باضابطہ تقریر مولانا مصطفیٰ مدنی صدر نورفائونڈیشن نے کی ۔انہوں نے کہاکہ دین انسانوں کے لئے اللہ کا نظام ہے ۔جب بھی اس نظام میں انسان مداخلت کریں گے فساد برپاہوگا۔انہوں نے کہاکہ جس دین کا رہبر عالم انسانیت کے لئے رحمت ہووہ دین بھلا دہشت گردی کی حمایت کیسے کرسکتاہے ۔یہ فقط اسلام دشمن طاقتوں کاپروپیگنڈہ ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہاکہ دین میں دعوت ہے جبر نہیں ۔جو چاہے اس دعوت کو قبول کرے جو چاہے قبول نہ کرے ،اس میں جبر کہاں سے آگیا۔
انجمن فلاح دارین لکھنؤ کے صدر مولانا جہاں گیر عالم قاسمی نے کہاکہ ہم نے مولانا کلب جواد صاحب کے ساتھ مل کر لکھنؤ میں اتحاد امت کی تحریک چلائی جو بحمداللہ کامیاب ہوئی اور آج شیعہ وسنّی کے درمیان کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔اگر ہم ایک شہر میں لوگوں کو متحد کرسکتے ہیں تو آخرعالمی سطح پر مسلمان حکومتیں اپنے اتحاد کا مظاہرہ کیوں نہیں کرپارہی ہیں ؟اس کی ایک وجہ اسلام اور مسلمانوں سے عدم اخلاص ہے ۔ان عرب ملکوں نے منافقت اور بزدلی کی چادر اوڑھ رکھی ہے مگر شیعوں نے مسئلہ فلسطین پر استقلال کا مظاہرہ کیاجس نے عالم اسلام کے دلوں کو ٹھنڈک پہونچائی ۔انہوں نے کہاکہ آخر حزب اللہ ،ایران ،انصاراللہ اور دیگر مزاحمتی تنظیموں کو غزہ کے معاملے میں دخل دینے کی کیاضرورت تھی؟آخر کس بنیاد پر انہوں نے غزہ کے مظلوموں کاساتھ دیا؟ کیوں وہ شہادتیں دے رہے ہیں؟یہ صرف غیرت ایمانی ہے جس نے انہیں غزہ کے مظلوموں کی حمایت کے لئے کھڑاکیاہے ۔کاش یہ غیرت ایمانی عرب ملکوں میں بھی پیداہوجاتی تو حالات ایسے ناگفتہ بہ نہیں ہوتے ۔
بی بی سی کے سابق صحافی جناب قربان علی نے اپنی تقریر میں میڈیا کے عالمی کردار پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ میڈیا وہ دکھاتاہے جو عالمی استعمار دیکھنا چاہتاہے ۔انہوں نے کہاکہ امریکہ نے ممنوعہ ہتھیاروں کے بہانے جب عراق پر حملے کا منصوبہ بنایا تو اس وقت دنیا نے کہاتھاکہ عراق کے پاس ایسے ہتھیار نہیں موجود نہیں ہیںمگر امریکہ نے اس کو تسلیم نہیں کیا ۔اس وقت کے امریکی صدر جارج بُش نے دنیا کو جواب دیتے ہوئے کہاتھاکہ ہمیں صدام حسین کی شکل پسند نہیں ۔عالمی مخالفت کے باجود امریکہ نے عراق پر حملہ کیا اور اس کوتباہ وبرباد کردیا۔اس وقت بھی عالمی برادری خاموش تھی اور میڈیا بھی ۔کیونکہ میڈیا استعمار کی پالیسی کے خلاف نہیں جاسکتا۔انہوں نے ہندوستان کی سماجی صورتحال پر بھی بات کی اور کہاکہ آزاد ہندوستان میں مہاتما گاندھی کا قتل پہلا دہشت گردانہ واقعہ تھا۔دوسرا واقعہ بابری مسجد کی شہادت کاہے۔انہوں نے کہاکہ مسلمانوں کو موجودہ صورتحال سے لڑنے کے لئے آئین کا سہارالیناچاہیے اور اگر کہیں کوئی آئین کے خلاف کام کرتاہے تو اس کے خلاف مقدمہ درج کروائیں اور عدالتوں سے رجوع کریں ۔انہوں نے کہاکہ ہمارا قومی میڈیا بے غیرت اور بے حس ہے ۔اس میں مظلوموں کی حمایت میں بولنے کی جرأت نہیں ہے کیونکہ وہ سرمایہ داروں کےہاتھ کاکھلوناہے ۔
اس کے بعد مولانا سلمان حسینی ندوی کی تقریر کو ویڈیو کے ذریعہ نشر کیاگیا۔انہوں نے اپنی تقریر میں عالم اسلام کو متحد ہونے کی دعوت دی اور کہاکہ جب تک مسلمان فرقوں میں بٹے رہیں گے کامیاب نہیں ہوسکتے ۔انہوں نے کہاکہ اس وقت عالم اسلام کا سب سے بڑامسئلہ فلسطین ہے ۔جو لوگ ملت فلسطین کے ساتھ ہیں وہی حق پر ہیں اور وہی لوگ ان شاءاللہ غالب رہیںگے ۔انہوں نے کہاکہ اس وقت عالم اسلام کی قیادت ایران کے ہاتھ میں ہے کیونکہ وہ باطل طاقتوں کے خلاف کھڑاہے ۔آئندہ جوبھی باطل طاقتوں کے خلاف کھڑاہوگاعالم اسلام کی قیادت اس کے پاس ہوگی ۔انہوں نے کہامسئلۂ فلسطین پر جو ہندوستان کی پالیسی ہے وہی ہماری ہے ۔لہذا میڈیا بھی ہندوستان کی پالیسی کے خلاف عمل نہ کرے ۔انہوں نے میڈیا کے ذریعہ سید حسن نصراللہ اور اسماعیل ہنیہ کو دہشت گرکہنے پر سخت احتجاج کیا۔
ایڈوکیٹ اعجاز حیدر نے عالمی قانون کی روشنی میں دہشت گردی کی تعریف پیش کی اورکہاکہ اقوام متحدہ کے قانون کی روشنی میں دہشت گردی کی تعریف یہ ہے کہ جو انسانوں کا بہیمانہ قتل کرے ،یا ان لوگوں پر ظلم کرے جو جنگ میں شامل نہ ہوں،اس کو دہشت گردی کہتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ ہندوستان کا قومی میڈیا جن تنظیموں یا شخصیتوں کو دہشت گردکہہ رہاہے انہیں ہمارا ملک دہشت گرد نہیں مانتاتوپھر میڈیا کس بنیاد پر یہ انہیں بدنام کررہاہے ؟ ایودھیا کے مہنت سوامی آنند نرائن جی مہاراج نے اپنی تقریر میں کہاکہ انسانیت سے بڑاکوئی دھرم نہیں ہے ۔ہمیں پیار محبت سے رہناہوگاتبھی ترقی ممکن ہے ۔انہوں نےکہاکہ نہ کوئی مذہب براہے اور نہ کوئی انسان ،بلکہ جو شیطان کی پیروی کرے وہ براہے ْ۔انہوں نے اپنی تقریرمیں امریکہ اور اسرائیل کی دہشت گردی کی مذمت بھی کی ۔
سیمینار کے آخر میں مجلس علمائے ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید کلب جواد نقوی نے مجلس کوخطاب کرتےہوئے غزہ جنگ میں قومی میڈیا کے کردار کی مذمت کی ۔انہوں نے کہاکہ میڈیا ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بتلارہاہے ،یہ المیہ ہے ۔انہوں ’برٹینیکاانسائیکلو پیڈیا ‘کا حوالہ دیتے ہوئے کہادنیا میں پہلی دہشت گرد تنظیم یہودیوں نے بنائی تھی جس کا نام’ زیلکس‘تھا۔انہوں نے کہاکہ اس انسائیکلوپیڈیا نے ہیٹ اسپیچ کو بھی دہشت گردی کے دائرے میں رکھاہے ،توکیا اشتعال انگیز بیانات دینے والے ڈاسنا مندر کے مہنت نرسنگھانند گری مہاراج کے خلاف سرکار کارروائی کرے گی؟ایسے لوگوں کو آخر اتنی چھوٹ کیوں دی جارہی ہے ؟انہوں نے کہاکہ نرسنگھانند کو گرفتارکرکے ان کے خلاف مقدمہ چلنا چاہیے ۔مولانانے کہاکہ اسلام میں کسی بے گناہ کے قتل کی اجازت نہیں ہے ۔قرآن مجید کی ایک آیت کی روشنی میں انہوں نے کہاکہ اگر دوران جنگ کوئی غیر مسلم اسلام کو سمجھنا چاہے تو اس کو قتل نہیں کرسکتے ۔اگر اس کو اسلام سمجھ میں آجاتاہے توٹھیک ہے لیکن اگر وہ کہتاہے کہ میں اسلامی تعلیمات سے مطمئن نہیں ہوں ،تو اس کو قتل نہیں کرسکتے بلکہ حکم یہ ہے کہ اس کو محفوظ جگہ پہونچادو۔مولانانے کہاکہ دنیا کا دستور یہی رہاہے کہ جو ظالموں کے خلاف لڑتاہے اس کو ہی دہشت گرد کہاجاتاہے ۔آخر میں مولانا نے حضرت علی اصغر ؑ کی شہادت بیان کی اور دعاکے ذریعہ سیمینار کے ختم ہونے کا اعلان کیا۔
سکھ برادری کی جانب سےجناب آشیش کپور اور تیج ویر سنگھ جی آخر تک اسٹیج پر موجود رہے۔ سیمینار میں شرکت کرنے والوں کے لئے امریکہ و اسرائیل کے جرائم اور مقاومتی تنظیموں کے کارناموںپر مشتمل نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا تھا ۔اس کے علاوہ ایک ڈاکیومنٹر ی ’غزہ کل اور آج‘ بھی دکھلائی گئی جس میں غزہ کے ماضی اور موجودہ تباہی کے مناظر پیش کیاگیاتھا۔سیمینارمیں مولانا صابر علی عمرانی نے دہشت گردی کے خلاف اشعار پیش کئے ۔مولانا باقر رضانے نظامت کےفرائض انجام دئیے ۔
سیمینار میں جناب ڈاکٹر مرزا یعسوب عباس ،مولانا رضا حیدر زیدی،مولانا اختر عباس جون ،مولانا مرزا جعفر عباس ،مولانا کلب سبطین نوری،مولانا فریدالحسن تقوی،مولانا رضا حسین رضوی،مولانا حیدر عباس رضوی،مولانا اصطفیٰ رضا،مولانا رضاامام ،مولانا منظر صادق ،مولانا ثقلین باقری،مولانا فیروز علی بنارسی ،مولانا ابوافتخار زیدی،مولانا عقیل عباس،مولانا نظر عباس،مولانا سرتاج حیدر زیدی،مولانا سعیدالحسن ،مولانا محمد ابراہیم ،مولانا احتشام الحسن ،مولانا علمدار حسین ،مولانا انتظام حیدر،مولانا گلزار حسین جعفری ،مولانا مشاہد عالم رضوی ،مولانا شمس الحسن ،مولانا مکاتیب علی خان اور دیگر علما،دانشوروں اور شہر کے معزز افراد نے شرکت کی ۔