190

کھانا پیش کرنے کی شفا حضرت یوسف (ع) کی قمیص کی طرح ہے جس سے حضرت یوسف کی آنکھوں کو شفا ملی. سید کرار هاشمی

کھانا پیش کرنے کی شفا حضرت یوسف (ع) کی قمیص کی طرح ہے جس سے حضرت یوسف کی آنکھوں کو شفا ملی. سید کرار هاشمی

ایران//حوزہ علمیہ قم میں مقیم کشمیری طالب علم سید کرار ہاشمی نے ان سب لوگوں کو نشانے پے لیں لیا جنہوں نے سوشل میڈیا پے امام حسین علیہ السلام کے نام پر نذر دینے کے بدلے غریب مومنین کی مدد کیلئے باضابطہ مہم چلائی تھی۔

ہاشمی نے ان سے یہ مطالبہ کیا کہ یہ مذمت کرنے والے کیا اپنی ایک ماہ کی تنخواہ یا اپنی قائم مقام تنخواہ غریبوں کو دینے کے لئے تیار ہیں؟ جب بھی ہم کسی کی مذمت کرنا چاہیں تو ایک بار اپنے آپ سے پوچھ لیں کہ کیا ہم جوتا خریدنے، غیر ملکی دورے پر جانے، اپنی تنخواہوں وغیرہ میں سے غریبوں کو دینے کے لیے تیار ہیں؟

ٹیلی ویژن چینلز ، تعمیر مسجد، حسينيه، اخبار ، آج کے مکان یا دیگر چیزوں پر پیسہ خرچ ہوتا ہے، اسی طرح امام حسین علیہ السلام کی مجالس پر بھی پیسہ خرچ ہوتا ہے، امام حسین علیہ السلام کے لیے مسلسل رونا، ماتمی تقریبات کا انعقاد اور کھانا کھلانا، اور ان کے ایام میں سیاہ لباس پہننا مستحب ہے۔ یہ تمام واقعات امام سجاد علیہ السلام سے نقل ہوئے ہیں.

ہاشمی نے مزید بتایا کہ روایت سے ثابت ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد بنی ہاشم کی خواتین نے سید الشہداء علیہ السلام کے لیے ماتم کیا اور امام سجاد علیہ السلام نے ان کے لیے کھانا تیار کیا اور بہت سے علماء نے کہا ہے: ان مجالس کا کھانا ہر درد کی دوا ہے کیونکہ اس پر حسین (ع) کا نام ہے۔

ایران کے شہر مشہد المقدس میں امام رضا علیہ السلام کے روضہ مبارک میں لوگ کھانا کھانے کو اعزاز سمجھتے ہیں اور چاہئے کہ کشمیر میں محترم علماء کرام اسی رسم کو سادہ اور متبرک نذر کے عنوان سے رائج کریں جیسا ایران اور خود امام رضا علیہ السلام کے روضہ مبارک میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے۔ سورہ فرقان کی آیت نمبر 67 میں ارشاد ہے: ’’مومن وہ ہیں جو دیتے وقت نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ ہی سخت، بلکہ ان دونوں کے درمیان اعتدال کا خیال رکھتے ہیں۔

سید کرار ہاشمی نے مزید کہا کہ امام حسین علیہ السلام کے سوگواروں کو نذرانہ دینا دنیا کے اکثر مسلمانوں اور خاص طور پر شیعوں کے درمیان ایک عظیم و مقبول روایت ہے، اور یہ فطری بات ہے کہ اگر ہمارے معاشرے میں حسینی کلچر پروان چڑھے تو معاشرے میں اسلامی تعلیمات اور ظلم کے خلاف جذبہ بڑھے گا اور اس مسئلہ کے نتیجے میں مظلوموں کے حقوق کی پاسداری کی جائے گی۔ ظالموں سے مظلوم اور سماجی انصاف کا قیام اور معاشرے میں غربت کا خاتمہ ہوگا۔

معاشرے میں مادی غربت کے علاوہ ثقافتی غربت بھی ہے، بدقسمتی سے لوگوں کا ایک گروہ مادی غربت پر توجہ دیتا ہے اور ثقافتی غربت کو نظرانداز کرتا ہے۔ ہاشمی نے مزید کہا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں