تحریر: موسیٰ علی نوگامی
وادی کشمیر کے معروف و معزز علمی اور تبلیغی خانوادہ کے چشم وچراغ، مفکر و فاضل، حق شناس، عدل وانصاف کا پیکر، توحید پرست، معدل، خوف خدا میں لوگوں کو رولانے والا، سنت نبوی و ائمہ کو زندہ کرنے والا، بدعت کو ختم کرنے والا، تحریک ولایت فقیہ، حافظ ولایت فقیہ در کشمیر، انقلاب اسلامی ایران برپا ہونے میں امام روح اللہ خمینی رح کا بہترین مددگار ،حامل شعور و بصیرت ،حامل القرآن ،مؤید شعائر ماتم حسینی ،مصلح قوم و ملت جعفریہ کشمیر حجت الاسلام والمسلمین سید محمد فضل اللہ ایک عالم با عمل تھے۔
پیامبر اسلام (ص) کا ارشاد گرامی ہے :روئے زمین پر علماء کی مثال آسمان میں ستاروں کے مانند ہیں کہ جس طرح ستارے زمین و پانی میں اپنی روشنی سے رہنمائی کرتے ہیں اس طرح علماء دین کے علمبردار اور عوام کیلئے رہنما قرار پائے ہیں۔
آغا صاحب بھی ہمارے لئے ستاروں کے مانند تھے، انہوں نے قوم کی ہدایت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور آخری سانس تک ڈٹے رہیں۔
آغا سید محمد فضل اللہ علیہ الرحمہ و الرضوان 1947 میں پیدا ہوئے اور 29 جنوری 2018 کو رحلت فرما گئے۔
آغا مرحوم اس آیت الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا۔ سے ہمیشہ اپنے ہمکاران اور دوستوں کو واعظ و نصیحت فرماتے تھے اور خلوصِ نیت سے کام کرنے کی تلقین فرماتے تھے۔ مال و دولت اسباب فتنہ ہے عمل صالح بہترین زادہ راہ ہے ۔ ان جناب کی زندگی کے واقعات میں سے ایک واقعہ ہے ۔ مکاتب میں درس وتدریس کرنے والے معلمین و معلمات کو رواں ماہ کے آخر (30) پر ہی شھریہ ملا کرتا تھا ایک دن کسی سبب سے (30) کو شھریہ دینے میں ان کے مسؤلین کو تاخیر ہوی ، جب آغا صاحب کو یہ معلوم ہوا کہ اساتید کو اپنا حق وقت نہیں ملا تو ہو سخت غضبناک ہوئے اور انکو فرمایا اساتید کو اپنا حق وقت پر نہ ملنے پر ان کا اھل و عیال کیا سوچ رہے ہونگے، ان کو اپنے کفیل پر سے بھروسہ اٹھ گیا ہو گا ، لہذا ان کو فورا شھریہ دیا جائیں اور دوبارہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔ آغا صاحب نے اپنے اصولوں سے کھبی بھی سمجھو تہ نہیں کیا، اور نہ ہی ان سے منحرف ہوئے۔ آغا صاحب نے ہوائوں کے رخ دیکھ کر کھبی بھی اپنی سمت نہیں بدلی اور نہ ہی خود کو بہتی دھارا کے حوالے کیا، بلکہ وہ اپنے موقف پر آخری دم تک چٹان کی طرح ڈٹے رہے اور خود سے زیادہ لوگوں کی فکر میں رہتے تھے
آغا فرماتے ہیں کہ میں اپنے بچوں کو گروی رکھوں گا مگر آپ کے بچوں کو معارف اسلامی کی تعلیمات سے آراستہ کرائیں گے۔ آغا صاحب اپنے والد مرحوم آغا سید یوسف ؒ کے نقش تھے۔ آغا صاحب نے ساری زندگی سادگی سے گزاری اور آغا سید یوسف ؒ نے 1973 میں جو مکان بنایا تھا ، اس میں آخر تک رہائش پذیر تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ 2014 میں مکاتب کے اساتید کے لئے تربیتی کمیپ کا انعقاد کیا گیا ۔اس میں ایک بار آغا صاحب نے تشریف لایا تھا اور ہمارے ساتھ اپنے تعلیمی سفر کو شئر کیا۔
آغا صاحب نے فرمایاکہ جب ہم پڑھتے تھے تو ہم سماوار میں کھانا پکاتے تھے اتنی سختیاں جھیلی پھر بھی تعلیم کو جاری رکھا ۔
آپ بھی مشکلات کا سامنا کرو اور آگے بڑھو ، زندگی میں کبھی بھی مشکلات سے نہ گھبرانا، میری دعا ہمیشہ آپ کے ساتھ ہے۔ واقعا آغا صاحب ہمارے لئے آسمان کے ستاروں کے مانند تھے جنہیں دیکھ کر ہم سیدے راستے پر گامزن تھے مگر جب وہ ستارہ ٹوٹا تو ہماری زندگی میں کالے بادلوں کا آغاز ہوا ،ان کا جسمانی ہم سے دور ہونا بہت مشکل ہوا۔
مجھے آغا صاحب کی کمی آج بھی محسوس ہوتی ہے،بہت سخت ہے ایک روحانی باپ کا اس دنیا سے رخصت ہونا۔
خداوند متعال آغا مرحوم کو جنت الفردوس عطا فرمائیں آمین ثم آمین۔