WhatsApp Image 2023-01-03 at 7.00.34 PM

ماملت امام حسین ؑ ہستیم !

ماملت امام حسین ؑ ہستیم !

تـحـریـر : محمد جواد حبیب کرگلی

قاسم سلمامنی ولد حسن، 11 مارچ 1957ء کو ایران کے صوبہ کرمان کے مضافات مںا رابُر نامی شہر کے سلماینی قبلےق مںہ متولد ہوئے۔ اور 3 جنوری 2020ء کو ان کی گاڑی پر امرییر حملے مںا عراق کے رضاکار فورس حشد الشعبی کے نائب سپہ سالار ابو مہدی المہندس سمتے بعض دیگر ساتھو0ں کے ساتھ بغداد مںی شہد ہوئے۔لیکن دنیا سجمھ گئی کہ عصر حاضر کی عظمن طاقت، قاسم سلمامنی تھے،دناووالوں نے آپکی شہادت پریہ دیکھاکہ! سردار قاسم سلماانی، ابو مہدی مہندس اور انکے ساتھومں کی شہادت کے بعد تشعی، جنازہ عراق کے لاکھوں لوگوں نے بغداد، کاظمن ، اور کربلا ونجف مںھ کںد، اور پھر شہدا سردار کا جنازہ، ایران منتقل ہوا، پھر خود ایران کے مختلف شہروں (اهواز،مشهد،تهران،قم وکرمان) مں کروڑوں لوگوں نے آپ کی تشعا جنازہ مں، شرکت کی، اس کے علاوہ تہران مںن ملوبنون لوگ تشعن، جنازہ مںز شریک ہوئے، خبر کے مطابق ایران مںر سدد روح‌الله امام خمیرک رحمت اللہ علہو کی تشعب جنازہ کے بعد سب سے بڑی تعداد میں جمعیت آپ کے جنازہ مں، شریک ہوئے ہیں یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ جسے خدا وند زندہ رکھے اس کو کوئی مٹا نہیں سکتاہے ۔
نورحق شمع الہی کو بھجاسکتا ہے کون
جسکا حامی ہوخدا اسکو مٹاسکتا ہے کون
شیعہ قوم کی تاریخ مظلومیت سے عبارت ہے ۔ شہادت سے آغاز ہوتی ہےاور ہر زمانہ میں اسی شہادت کا تسلسل بر قرارہا ہے۔ چودہ صدی پر مشتمل تاریخ کا ہر وقفہ اہل بیت کے چاہنے والوں کی مظلومیت میں گزرا ہے۔ عزاداری ہو یا مقدسات عزا کا تحفظ، شہادت کے بغیر نامکمل نظر آتاہے۔ عزاداری کے تعلق سے برصغیر میںجانے کتنے عزادار سرخروئے حق ہوئے اور اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام کے مقدس مقامات کے تحفظ میں بے پناہ دلاوراپنی جان کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ ۳جنوری ۲۰۲۰ اسی محافظ گروہ کا سردار قاسم سلیمانی بھی اپنی شہادت سے سرخرو ہوگئے تھے ۔شہید قاسم سلیمانی کون تھے ؟ انکی مکتب فکر کیا تھی ؟ اس کوسمجھناآج ہماری ذمہ داری ہے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامینہ ای حفظہ اللہ کے فرمان کے مطابق : “شہدی قاسم سیلمانی ایک مکتب کا نام ہے “مزید انہوں جہاں جامعتٓ کے ساتھ اس شہدن فقدج کا تعارف کروایا ہے وہاں دشمن کو بھییہ پغاام دیا ہے شہد قاسم سیلمانی صرف جنرل ہی نھںد تھے بلکہ ایک مکتب کا نام ہے جو اپنے افکار کے ساتھ زندہ تھا اور زندہ رہے گا۔ شہدں کے جانے سے اس مکتب کے پریو کار اسے زندہ رکھں گے۔
تلوار کی دھار سے کٹ سکتی نھںا کردار کی لو
بدن کی موت سے کر دار مر نھںی سکتا.
مکتب آیت اللہ شددا مرتضی مطرشی کی نگاہ مںھ:’’ ایک تھوجری اور جامعہ اور مکمل منصوبہ هے جسکا اصلیہدف انسان کے لے کمال اور سعادت کی راہ کو معند کر نا ہے ‘‘شہدش قاسم سیلمانی نے اپنی پاکزیہ فکر اور عمل کے ذریعے اس مکتب کی بنازد رکھی اور مادیات کے اس دور مںر ظلمت سے نکل کر نور کیطرف راہ کی راہنمایی فرمائی۔ شہدے قاسم سیلمانی ایک مکتب کا نام ہے تو پھر اس کے اندر جامعتک کا عنصر بھی موجود ہونا چاہئے جو ہر دور کے عشاق کو راہنمایی کر سکے۔ جب شہدی ایک مکتب اور مدرسہ ہے تو پھر جس طرح ایک مدرسہ اور مکتب مںا مختلف علوم ہوتے ہںد، شہدن قاسم سلمارنی کا مکتب بھی اپنے طالب کے لئے نصاب رکھتا ہے، جہاں اخلاق و معنویت، خدا کے ساتھ ارتباط ، اخلاص، ینم کامل، عزم راسخ، سعہ صدر، بردباری، عشق و محبت، شناخت دشمن، بصرات، مقاومت، جس کی تفسرب علمی معاشرے مںج رہتے پاکزطہ اور بابصر ت افراد مددان جنگ مںد موجود مجاہدین اور اس کی علمی تفسری بابصریت علماء کا وظفہہ ہے۔جب مکتب ہے تو پھر اپنے اندر اسرار و پغادم رکھتا ہے.اے دشمنان اسلام تم سمجھ رہے تھے شہدج قاسم سیلمانی اور ابو مہدی المہندس کو شہدس کر کے تم اپنے مقاصد مںت کا مابب ہو جاو گے۔
نور خدا ہے کفر کی حالت پے خندہ زن
پھونکو ں سے یہ چراغ بجھایا نہ جاے گا۔
وعدہ الہی ہے بریدون ان یطفوا نور اللہ
با فواھھم وللہ منتم نور ہ ولو کرہ الکافرون
شہید حاج قاسم سلیمانی خود فرماتے ہیں شہید ہونے کے لئے کچھ شرایط ہیں۔
پہلی شرط یہ ہے شہید بودن شرط شہیدشدن است یعنی شہید ہونے لے لئے شہیدوں ولی زندگی گزارنا شرط ہے جب تک آپ کی زندگی شہیدوں والی نہیں ہوگی تب تک آپ شہادت پر فائز نہیں ہوسکتے ہیں۔ دوسری شرط ہجرت ہے یعنی انسان ہرچیز کو چھوڑکر خداوند کی را ہ میں ہجرت کرے انسان مال ودولت ، بیوی اور بچے ، والدین اور رشتہ دار ،بھائی اور بہین اور دوستوں کو جھوڑکر خدا کی راہ میں قدم بڑھائے یعنی منیت اور انانیت کو للہیت کے لئے ترک کرے ۔
تیسری شرط جہاد فی سبیل اللہ ہے شہید ہونے کی تیسری شرط یہ ہے کہ انسان مسلسل راہ خدا میں جہاد کرتے رہے تھکاوٹ ،سستی اور کاہلی نہ آنے دے ہرانسان اپنے فیلڈ میں کوشاں رہے اس میں مومنین اور مستضعفین کی مدد کرے راہ خدا سے دوری اختیار نہ کرے ہمیشہ اس راہ سے منسلک رہے ۔
چوتھی شرط یہ ہے کہ انسان استقامت اور ثابت قدمی کا ثبوت دے سختیوں کا مقابلہ کرے تمام تر چلینچنز کا سامنے کرنے کی ہمت رکھے طاقت رکھے اس راہ میں اپنی پوری عمر صرف کرے تب جاکے انسان کو شھادت مل سکتی ہے اور شہادت وہ مقام ہے جس سے بڑا کوئی اور مقام نہیں ہے پیامبر اسلام فرماتے ہرنیکی سے بڑھ کر ایک نیکی ہے یہاں تک کہ انسان راہ خدا میں شہید ہوجائے جب انسان راہ خدا میں شہید ہوتا ہے تو اس سے بڑھکر کوئی اور نیکی نہیں ہے ۔ دانشمندوں اور تحققڑ کا ذوق رکھنے والوں کے لئے ایک وسعر وادی ہے، جنگی مہارت ہو یا پھر دشمن کے خلاف جنگ نرم، عرفان و معنویت کی بات ہو یا پھر اخلاص و عقدہت، ٹبل ٹاک کی بات ہو یا دشمن کی آنکھ مں، آنکھ ڈال کر بات کرنے کی۔ جذبۂ شہادت ہو یا جذبۂفداکاری، ناموس کی حفاظت کا معاملہ ہو یا انسانی جانوں کو خونخواروں سے نجات دلانے کی بات، خدا ہو یا دشمن، بے رعب و دبدبہ، یموی ں سے محبت ہو یا مصبت، زدہ افراد کی مدد، اہل تحققں کے لئے ایک وسعس مدڑان ہے، یہ بابصر ت علماء اور اہل قلم کی ذمہ داری ہے کہ اس مکتب کو شفاف انداز مںی آئندہ نسلوں تک پہنچائں اور اس مکتب کو تحریف سے بچائںی۔جب مکتب کی بات ہے تو پھر مکتب روش مند اور ہدف مند ہوتا ہے، اس کا نکتۂ آغاز بھی ہے اور نکتۂ انجام بھی، ایرانوحں کے بقول اس مںخ رویش بھی ہے اور زایش بھی ۔ خود سازی سے شروع ہو کر معاشرہ سازی اور وحدت سے کثرت کی طرف جاری و ساری ہےآخری بات ہے جب یہ مکتب ہے تو “اصلہ ثابت و فرعھا فی السماء” کے تحت ایسا شجرہ طبہو ہے۔ تؤتی اکلھا کل حنا اس کے ثمرات اور پھل صرف ایک موسم کے لئے نہں بلکہ ہر موسم مںم پھلوں سے لدا ہوا ہے۔ باذن ربّھا اپنے رب کے اذن کے ساتھ ہر ایک کے لئے ہے، جب اس مکتب عشق کے ساتھ تعلق قائم کرتا ہے تو پھر یاد رکھتا ہوگا:
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کات ۔
دین اسلام کے مکتب کے علمبرادار”شهدب حاج قاسم سلماقنی،شہداحاج قاسم سلماانیؒ، ایک ماہر دشمن شناس تھے انھوں نے زمانے کے پیجیدہ حالات مںا اہم اور مہم کی ترجحاقت کو بخوبی پہچانا اور انھوں نے یہ بھی سمجھ لام کہ تمام فسادات کا منبع و سرچشمہ امریکہ اور اسرائل ہں ۔ لہذا انہوں نے فساد کے خلاف لرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ شہدا حاج قاسم سلما نی نے یہ جانتے تھے کہ عالم اسلام کی نجات کا واحد راستہ مقاومت ہے،لہذا نہضت مقاومت پر پوری توجہ مرکوز کی اور دشمنوں کو شکست دیتے ہوئے آگے بڑھتے رہے یہاں تک کے آج یمن،عراق، شام سب متحد اور منسجم ہوچکے ہںج اور استکباری طاقتوں سے دست و پنجہ نرم کر رہے ہیںیہ جرات اور یہ ہمت انہںے کہاں سے ملی؟بلا شک شهدہ قاسم سلماحنی کی وجہ سے اور یہ شھید کی کاوشوں کا نتجہڑ ہے۔ شهدت قاسم سلماننی ولایت فقہس کے مطع تھے اسی وجہ سے وہ دلوں کے امرر بن گیے اور تمام اقوام عالم ان سے بے پناہ محبت کرتی تھی۔شاعر کہتا ہے :
مالک اشتر علی نہ رہا /زور بازروئے رھبری نہ رہا
جس سے ڈرتے تھے وقت کے دشمن ،/ہائی وہ قاسم جزی نہ رہا .
اس زمانہ کا یقینا مالک اشتر ہے تو
ہاں ! زمانے کے علی کا باوفانوکر ہے تو
سینہء طاغوت پر اک کرارا وار ہو
غزوئ شام و یمن کا فاتح اکبر ہے تو
تم سے ہے اب کاخ استکبار کی نیندیں حرام
مشرق وسطی میں امریکہ کے آرمانوں کے شام
ہمارا فریضہ ہیکہ ہم شہدم قاسم سلماکنی کے راستے کو جاری رکھںش اور ان کے مشن کو بہترین انداز مںی پایہ تکملی تک پہونچاییں جو انھوں نے ھمارے کندھوں پر رکھا ہے۔ ہمںم پہلے سے کہںی زیادہ سخت محنت اور تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج ہںمش شھید قاسم سلماقنی کے راستے کو زیادہ سنجدںگی سے جاری رکھنا چاہےہ اور ان کے باشنات گہر بار کو مشعل راہ قرار دیتے ہوئے آگے بڑھنا چاہےت۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں