170730823 22

پچاس سربراہان مملکت کے نام صدر ایران کا مکتوب

اسرائیل کو غزہ میں جرائم بند کرنے پر مجبورکیا جائے
پچاس سربراہان مملکت کے نام صدر ایران کا مکتوب

ایران // اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے روس، چین، ترکیہ قزاقستان اور جنوبی افریقا سمیت دنیا کے پچاس ملکوں کے سربراہوں کے نام خط ارسال کرکے مطالبہ کیا ہے کہ صیہونی حکومت پر غزہ میں جرائم کا سلسلہ بند کرنے کے لئے مختلف سیاسی اور اقتصادی راستوں سے دباؤ ڈالا جائے۔

صدر ایران سید ابراہیم رئیسی نے دنیا کے پچاس ملکوں کے سربراہوں کے نام اپنے مکتوب میں غزہ میں 14 ہزار سے زیادہ افراد کو شہید اور لوگوں کے گھروں نیز بنیادی تنصیبات کو تباہ کردینے پر مبنی صیہونی حکومت کے وحشیانہ اقدامات نیز بعض مغربی حکومتوں کے دوہرے معیاروں نیز ان کی جانب سے اس حکومت کے جرائم کو دانستہ نظر انداز کئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے، لکھا ہے کہ دنیا کے خومختار اور حریت پسند ملکوں بالخصوص اسلامی ملکوں سے توقع ہے کہ سفارتی اور اقتصادی میدانوں میں متحد ہوکر غاصب صیہونی حکومت پر دباؤ ڈال کر، عام شہریوں کا قتل عام بند اور غزہ کا محاصرہ ختم کرائيں گے۔

صدر ایران نے دنیا کے پچاس ملکوں کے سربراہان مملکت کے نام اپنے اس مکتوب میں لکھا ہے کہ آج سبھی حکومتوں کا خدائی اور انسانی امتحان ہے۔

انھوں نے سربراہان مملکت سے اپیل کی ہے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ سیاسی اور تجارتی روابط نیز ہر طرح کا تعاون منقطع کرنے سمیت، غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف جرائم روکنے کے لئے اس پر دباؤ ڈالنے کے ہر وسیلے سے کام لیا جائے۔

صدر جمہوریہ ایران نے اس سے پہلے غزہ کے موضوع پر ہونے والے ریاض سربراہی اجلاس میں بحران غزہ کی دس نکاتی راہ حل پیش کی تھی جس کی شقیں مندرجہ ذیل تھیں:

نمبر 1۔ غزہ کے عوام کا قتل عام اور غیر فوجیوں بالخصوص اسپتالوں، اسکولوں، کیمپوں اور امداد رسانی کے مراکز پر حملے فوری طور پر بند کئے جائيں ۔ اس بات کی اجازت نہ دی جائے کہ صیہونی حکومت اور اس کے حامی “انسان دوستانہ وقفہ”جیسی اصطلاحات سے کام لے کر، رائے عامہ کا دباؤ کم کرنے کی کوشش کریں، بلکہ امریکا اور صیہونی دشمن کو عوام کا قتل عام فوری طور پر روکنے پر مجبورکرنے کے لئے ہر وسیلے سے کام لیا جائے۔ ہم اسلامی ملکوں کو جان لینا چاہئے کہ اگر غزہ اور غرب اردن میں صیہونیوں کی جارحیتوں اور توسیع پسندی کے مقابلے میں فلسطینی عوام کی استقامت نہ ہوتی اور اگر صیہونی حکومت کی جارحیت اور قبضہ گیری کے مقابلے میں لبنان کی استقامت نہ ہوتی تو آج بہت سے عرب اور اسلامی ممالک ایسی ہی جنگ میں گرفتار ہوتے ۔

نمبر2۔ غزہ کا انسانی محاصرہ ختم کیا جائے، مصری بھائيوں کے تعاون سے رفح پاس کو بلاقید و شرط کھولا جائے اور غزہ تک خوراک اور دوائیں پہنچائی جائيں۔ امداد رسانی پر اس اجلاس میں اسلامی ملکوں کے محترم سربراہان مملکت اتفاق کریں اور اس پر عمل درآمد کے لئے ایک ورکنگ کمیٹی بنائی جائے ۔

نمبر3۔ غزہ سے صیہونی حکومت کے فوجیوں کا فوری انخلا۔ غزہ کی زمین اور حکومت کا تعلق فلسطینیوں سے ہے اور حق حاکمیت منتخب حکومت کو ہے،ان لوگوں کو نہیں جو امریکا اور صیہونزم کی سرپرستی میں حاکم بنائے جائيں ۔ یہاں میں ضروری سمجھتا ہوں کہ سبھی بالخصوص اسلامی ممالک، فلسطینی اور مقبوضہ علاقوں کی سرحدوں کی سیکورٹی میں مشارکت کے ہر طرح کے امریکی صیہونی منصوبے کی طرف سے ہوشیار رہیں ، اس پر کوئي توجہ نہ دیں کیونکہ اس سے صیہونیوں کے قبضے کا دفاع ہوگا اور اس میں مدد ملے گی۔

نمبر 4۔ اسلامی ممالک صیہونی حکومت سے ہر قسم کا سیاسی اور اقتصادی رابطہ ختم کرلیں۔ اس سلسلے میں توانائي کے شعبے میں صیہونی حکومت کے بائیکاٹ پر خصوصیت کے ساتھ توجہ دی جائے اور عوامی تحریکیں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی حمایت کریں۔

نمبر 5۔ اسلامی حکومتیں جارح اور قابض افواج کو دہشت گرد تنظیم قرار دیں ۔

نمبر6۔ امریکا اور صیہونی حکومت کے مجرم حکام اور ترجیحی طور پر ان حکام پر جو حالیہ جنگ میں انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی میں شریک ہیں مقدمہ چلانے کے لئے بین الاقوامی عدالت تشکیل دی جائے ۔

نمبر 7۔ اسلامی ملکوں کی منظوری کے ساتھ غزہ کی فوری تعمیر نو کے لئے ایک خصوصی فنڈ قائم کیا جائے۔

نمبر 8۔ مختلف اسلامی ملکوں کی جانب سے فلسطینی عوام کے لئے امدادی کارواں روانہ کئے جائیں۔

نمبر 9۔ جس دن غزہ کے المعدانی اسپتال پر بمباری کی گئ ہے اس دن کو انسانیت کے خلاف جرم اور نسل کشی کے دن کا نام دیا جائے۔ اور

نمبر10 ۔ اس غیر مساوی جنگ میں امریکا کی کمان میں صیہونی حکومت کے جنگی جرائم جاری رہنے کی صورت میں اسلامی ممالک فلسطینی عوام کو مسلح اور جنگ افروز غاصبوں کے مقابلے میں مجاہدت میں ان کی مدد کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں