تحریر: سبزار علی
ٹماٹر! یہ لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک سرخ، خوشبو دار اور رس بھری سبزی کا خیال آتا ہے، جو ہمارے کھانوں کی شان بڑھاتی ہے۔ لیکن آج کل ٹماٹر کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ اس کی اہمیت اور قیمت نے سب کو حیران کر دیا ہے۔ بازار میں جائیں تو یوں لگتا ہے جیسے ٹماٹر کوئی نایاب جوہر بن چکا ہے، اور اس کی قیمت دیکھ کر لوگ سوچتے ہیں کہ ٹماٹر لینا ہے یا کوئی قیمتی زیور۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی! ٹماٹر تو ایک عام سبزی تھی، جو ہمارے سالن، چٹنی اور سلاد کی جان تھی، مگر اب یوں لگتا ہے کہ اسے ہاتھ لگانا بھی امیروں کی بات بن گئی ہے۔
پہلے زمانے میں جب سبزیاں خریدنے کا وقت آتا تھا، تو ٹماٹر کو تھوڑی توجہ سے ہی لیا جاتا تھا۔ سبزی والے سے کہا جاتا کہ “ٹماٹر بھی دے دینا۔” لیکن اب تو ایسا لگتا ہے کہ ٹماٹر کے لیے الگ سے بجٹ بنانا پڑے گا۔ ویسے ہی جیسے خاص تقریبات کے لئے لباس کے لئے بجٹ بناتے ہیں۔ اب تو کچھ گھروں میں یہ بات چل پڑی ہے کہ ٹماٹر کا استعمال بچا کر کیا جائے، کہیں یہ اتنی جلدی ختم نہ ہو جائے کہ ساری ماہانہ تنخواہ اسے دوبارہ خریدنے میں لگ جائے۔
اور اس صورتِ حال کا سب سے زیادہ فائدہ تو ڈاکٹروں نے اٹھایا ہے۔ جی ہاں، اب ڈاکٹر حضرات اپنے مریضوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ “ٹماٹر سے پرہیز کریں” یا “ٹماٹر کھانا چھوڑ دیں، صحت کے لئے بہتر ہوگا۔” بھلا یہ کیسا مشورہ ہے؟ جہاں ٹماٹر کی کمیابی نے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے، وہاں ڈاکٹر حضرات اسے ایک اور مسئلہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ جب ٹماٹر کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہو، تو کیا ڈاکٹر صاحب کا یہ مشورہ سونے پر سہاگہ نہیں ہے؟
مگر غور کریں تو زندگی میں ہمارے ارد گرد بھی ٹماٹر جیسے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ جی ہاں، ایسے لوگ جو ٹماٹر کی طرح ہر کسی کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں، ہر محفل میں رنگ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اپنی اہمیت کا احساس نہیں رکھتے۔ جیسے کہ ٹماٹر ہر سالن کا حصہ بن کر اس کا رنگ بدل دیتا ہے، ویسے ہی یہ لوگ ہر محفل میں شامل ہو کر اپنے تاثرات چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک طرف اگر کسی دوست کے ساتھ ہوں تو ان کا ایک الگ انداز ہوگا، اگر گھر کے بزرگوں کے ساتھ ہوں تو دوسرا انداز، اور دفتر میں تو ایک بالکل ہی مختلف شخصیت نظر آتی ہے۔ ایسے لوگوں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ہمارے ہاں اصل ٹماٹر یہ لوگ ہیں، جو ہر ماحول میں ڈھلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ٹماٹر کی یہ عادت بڑی اچھی ہے، کہ وہ سب کے ساتھ گھل مل جاتا ہے اور ہر ذائقے کو بہتر بناتا ہے۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ زندگی میں کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں ٹماٹر بننے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہر کسی کے رنگ میں رنگ جانا یا ہر ایک کے ساتھ اتنی آسانی سے گھل مل جانا انسان کی شخصیت کے لئے اچھا نہیں ہوتا۔ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہر وقت ہر کسی کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کرتے ہیں، چاہے انہیں پسند ہو یا نہ ہو۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ صرف سب کو خوش کرنا چاہتے ہیں، اور اس چکر میں اپنی اصل شخصیت کہیں کھو دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ زندگی میں کچھ اصول بنانے اور ان پر قائم رہنے کی ضرورت ہے۔ ٹماٹر کا کام تو یہ ہے کہ وہ ہر سالن، چٹنی، یا سلاد میں اپنی موجودگی کا احساس دلائے اور ذائقے کو بہتر بنائے، مگر انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی شخصیت کا انوکھا رنگ برقرار رکھے۔ ہر جگہ ہر کسی کے ساتھ گھل مل جانا، بغیر کسی اصول کے، ایک انسان کی خودداری کو متاثر کرتا ہے۔
اب اگر ہم دوبارہ ٹماٹر پر آئیں تو دیکھتے ہیں کہ ہمارے سماج میں ٹماٹر کی اہمیت صرف کھانے میں نہیں بلکہ دوسرے معاملات میں بھی ہو چکی ہے۔ شادی بیاہ، دعوتیں، یا عام روز مرہ کی محفلیں، لوگ ان میں ایک دوسرے کے ساتھ ایسے گھل مل جاتے ہیں جیسے کہ سالن میں ٹماٹر۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ جیسے ٹماٹر ایک قیمتی شے بن گیا ہے، اسی طرح کچھ لوگ بھی اپنی حیثیت اور وقار کو بچا کر رکھتے ہیں۔ وہ ہر کسی کے ساتھ نہیں گھلتے ملتے اور اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہیں۔
اگرچہ مزاح کی نظر سے دیکھیں تو ٹماٹر آج کل واقعی ایک مذاق کا موضوع بن چکا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جب تک ٹماٹر سستا تھا، کسی نے اس کی پرواہ نہیں کی، مگر جیسے ہی اس کی قیمتیں بڑھیں، سب کو اس کا خیال آ گیا۔ کچھ ایسا ہی حال زندگی میں ان لوگوں کا بھی ہوتا ہے جو ہمیشہ دوسروں کے لئے حاضر ہوتے ہیں، مگر جب وہ خود پر توجہ دیتے ہیں یا اپنی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں تو لوگ چونک جاتے ہیں۔
تو جناب، ہماری یہ باتیں سن کر اگر آپ کو ڈاکٹر صاحب کا وہ مشورہ یاد آ گیا ہو جس میں انہوں نے کہا تھا کہ “ٹماٹر کھانا چھوڑ دیں”، تو ہم یہی کہیں گے کہ آپ ہنسی خوشی مان جائیے۔ ٹماٹر کے بغیر بھی سالن چل سکتا ہے، مگر زندگی میں اپنے اصولوں کے بغیر انسان کا چلنا مشکل ہوتا ہے