تحریر: مولانا گلزار جعفری
کل شام چھ بجے سے ہی چشم فلک نے اشک فشانی کی پیش گوئی کر کے اہل شعور کے دلوں کو متوجہ کر دیا تھا۔ باضمیر افراد دل کو تسلی دینے کے لیے خبروں کی تہوں میں حیات کی امید تلاش کر رہے تھے، حالانکہ نیلے آسمان پر سیاہ بادلوں کی ہلکی بارش کسی رنجیدہ کیفیت کی علامت تھی۔ یہ بات عام لوگوں کے لیے شاید معمول کی تھی، لیکن وہ لوگ جن کے سینے میں دل صرف دھڑکتا ہی نہیں بلکہ درد بھی محسوس کرتا ہے، ان کے لیے اس کیفیت کی حقیقت کچھ اور تھی۔ یہ لوگ ان استعاروں کے اسرار کو قلم کے ذریعے صفحہ قرطاس پر اتارنے کا ہنر رکھتے ہیں۔
شبِ جمعہ کو، جب میں درگاہ عالیہ باب الحوائج لکھنو میں اہل و عیال کے ساتھ مغرب سے قبل زیارت کے لیے گیا، تو چھوٹی بیٹی نے شفق کے ماتھے پر بکھری سرخی کو دیکھ کر بے خیالی میں کہا، “بابا، آسمان کی جانب دیکھیں، کتنا خوبصورت لگ رہا ہے۔” میں نے جیسے ہی آسمان کی طرف نگاہ کی، تو دیکھا کہ مشرق کی سرخی مغرب تک سفر طے کر چکی تھی۔ لیکن آج کی سرخی کی کیفیت کچھ عجیب تھی، جا بجا خون کے دھبے سے محسوس ہو رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر دل میں خیال آیا کہ خدا خیر کرے، یہ خونی کیفیت آسمان پر کیوں ہے۔
اگلے ہی دن خبریں گردش کرنے لگیں کہ لبنان کے جنوبی علاقے ضاحیہ میں ہزاروں ٹن بارود برس رہا ہے، مظلوموں کی چیخیں آسمان تک بلند ہو رہی ہیں، شہادتوں کا خیمہ آباد ہے، اور اسرائیلی دہشت گرد خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ آسمان حقیقت میں خون کے آنسو رو رہا تھا۔
کبھی کبھی واقعات قلم فکر پر دستک دیتے ہیں، مگر دنیا کی ضروریات کا شور شعور پر غالب آجاتا ہے، اور تقویٰ و تقدس کی کمی ہمیں حق شناسی سے دور کر دیتی ہے۔ حب دنیا کا حجاب نہ جانے کتنے حقائق سے چشم پوشی کی راہ دکھاتا ہے۔ لیکن جب قلم کی روانی فکر کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہے تو پرانی دستکوں کی آوازیں بازگشت کرنے لگتی ہیں، اور جولانی فکر کتاب حیات کے اوراق پر شہادتوں کے خیمے تلاش کرتی ہے۔ اس کی طنابوں میں نورانی پہریدار دکھائی دیتے ہیں۔
موسم کی اداسی، دل کی خاموشی، ماحول کا عجیب سا سناٹا، دل کا کسی چیز میں نہ لگنا اور ہر کام سے من اچٹنا – یہ سب محبوب کے مصیبت میں ہونے کا رمز ہے۔ خدا کرے کہ یہ دل اس رمز کا ادراک کر سکے اور اسے الفاظ میں بیان کرنے کا ہنر پائے۔
وہ راہی ملکِ شہادت ہوا، یا مسافر بہشتِ بریں۔ وادی مغفرت سے گزرتا ہوا وہ رحمتِ الٰہی کے سایہ میں پناہ گزین ہو گیا۔ تیس برس کی عظیم ذمہ داری کے بعد، ترسٹھ برس کی تکمیل نے شہادت کا الارم بجایا، اور اس کے کاسہ گدائی میں عصمتوں کی قیادت کی جھلک کا حق دے دیا۔ ورنہ ترسٹھ برس کی عمر میں جام شہادت یا تو نبوت کو ملتا ہے یا امامت و صداقت کو۔ مگر جو ان کے نقشِ قدم کا راہی ہو، خاکِ قدم کو سرمہ بنایا ہو، اور صراطِ صبر کا سالک ہو، اس کا حق تھا کہ کتابِ حیات کے آخری صفحے پر شہادت کی عبارت کو قبول کرے اور “شاکر رب کعبہ” کہلائے، تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بن سکے۔
ہماری جانیں قربان اس عاشق آلِ محمدﷺ پر، جس نے پوری قوت کے ساتھ دفاع حرم کے فریضے کو انجام دیا، اور “کلنا عباسک یا زینب” کے اس باوقار نعرے کی گونج سے دہشت گردوں کا درندہ صفت ٹولہ بھاگتا نظر آیا۔ خیبر کی شکست کا بدلہ لینے والے اس چشمِ حقیقت کے آنکھیں بند کر لینے کو اپنی کامیابی نہ سمجھیں۔
لبنان کی سرزمین نے شہیدوں کی کاشتکاری کی ہے، یہاں لہو سے زمین کو سینچا گیا ہے۔ مصیبتوں اور جنگ کی تمازت نے سورج کی حرارت دی، اور یوں شجرِ شہادت پروان چڑھتا رہا۔ بلکہ یوں کہیے کہ شہادت کا رنگِ حنا ہر ہتھیلی پر کھلا ہے، اور کھلتا رہے گا۔ خوش قسمت ہیں وہ قومیں جو شرفِ شہادت سے سرشار نظر آتی ہیں۔ خدا ان نسلوں میں برکت دیتا ہے جن کے حوصلوں میں شہادت کے جذبے پروان چڑھتے ہیں۔
ربِ کریم سید حسن نصراللہ اور ان کے رفقاء کار شہداء اسلام کے درجات بلند فرمائے۔ ہم اس عظیم سانحے پر حضرت بقیہ اللہ الاعظم عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو ان کے سپاہی کی، اور عالم اسلام و مظلومینِ عالم کو ان کے مسیحا کی، اور رہبرِ معظم کو ان کے دستِ راست قوتِ بازو کی شہادت کی تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں۔