جیلوں میں بند نوجوانوں کو رہا کرکے انہیں عزت سے زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا جائے
سرینگر // ہم نے کئی برسوں سے اس کا انتظار کیا کہ کشمیر ملک کے باقی ریاستوں سے ریل کے ذریعے جڑ جائے۔ آج مبارک دن ہے کہ یہ ٹرین سنگلدان تک پہنچ گئی اور وزیر اعظم نے اس کا افتتاح کیا اور مجھے اُمید ہے کہ امسال ہی جون جولائی تک یہ ریل رابطہ پوری طرح مکمل ہوجائے گا ۔ سی این آئی کے مطابق ان باتوں کا اظہار صدرِ نیشنل کانفرنس ڈاکٹر فاروق عبداللہ (رکن پارلیمان ) نے آج نوگام سرینگر میں بارہمولہ سنگلدان ریل رابطے کی افتتاحی تقریب میں شمولیت کے بعد مذکورہ ٹرین میں سفر کرنے کے دوران ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ٹرین کے بہت سارے فائدے ہیں، اس سے وہ بیمار آسانی اور جلدی سے ہسپتالوں تک پہنچ سکتے ہیںجنہیں پہلے بہت زیادہ وقت اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا، ہمارے بچے دور دور تک سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹوں کا رُخ کرسکتے ہیں، ہمارا میوہ آسانی سے ملک کے کونے کونے تک پہنچ جائے گا اور ملک کی ہر ریاست سے سیاح آرام سے ریل کے ذریعے یہاں آسکیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ’’جب بھی ٹرین رابطہ آگے بڑھتا ہے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ مجھے یاد رہے کہ جب جموں تک ٹرین کو لایا گیا اور یہ کہا جارہا تھا کہ اس سے آگے ٹرین نہیں چلے گی ، میں اُس وقت کے ریلوے وزیر سے ملا اور اُن سے گذارش کی کہ اس کو آگے بڑھانے کے بارے میں بھی سوچا جائے اور انہوں نے 100کروڑ روپے واگذار کئے اور ٹرین کو ادھمپور تک لے جانے کا کام شروع ہوا اور وہیں سے اس عمل کی شروعات ہوئی۔‘‘ایل جی کی طرف سے استقبالیہ خطبے میں امن، پتھری بازی اور ہڑتال کلینڈروں کے خاتمے کے دعوے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ ’’اگر واقعی حالات میں بہتری آئی ہے ،پتھربازی نہیں ہورہی ہے اور ہڑتال کالیں نہیں دی جارہی ہیں تو پھر ہزاروں کی تعداد میں ہمارے بچے جیلوں میں کیوں ہیں؟ اُن کا قصور کیا ہے؟کیا یہ امن ہے؟ اگر یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ پولیس اور فوج سے لوگوں کو دبانے کو امن کہتے ہیں تو انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایک دن آئے گا جب یہ آتش فشاں پھٹے گا، تب یہ کیا کریں گے؟اس لئے میں ان کو مشورہ دیتا ہوں کہ لوگوں کو دبانا بند کریں، جیلوں کے دروازے کھولیں، ہمارے نوجوانوں کو رہا کریں اور اپنی زندگی عزت سے گزارنے کا موقعہ فراہم کیا جائے، ہم عزت چاہتے ہیں اور کچھ بھی نہیں۔‘‘ نیشنل کانفرنس قیادت کیخلاف حالیہ دنوں سے جاری گمراہ کُن پروپیگنڈا کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں صدرِ نیشنل کانفرنس نے کہا کہ ’’ہمارے خلاف جو اس وقت ایک گمراہ کُن پروپیگنڈا چلایا جارہاہے، اس کی پیچھے کی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مخالفین کو اپنی ہار بخوبی نظر آرہی ہے اور اب وہ تمام حدیں پار کرکے ہر کوئی حربہ اپنانے کی کوشش کررہے ہیں، میرے مندر جانے اور بھجن گانے کو اُچھالا جاتا ہے۔ مندر جانے اور بھجن گانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ میں ہندو ہوں، ہم اس سے مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم ایک ایسی ریاست میں رہتے ہیں جہاں ہر ایک مذہب کے لوگ اپنی بودباش کرتے ہیں، قرآن کریم میں صاف الفاظ میں لکھا ہے دوسرے مذاہب کا احترام کرو۔ میں ان لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم میں یہ نفرت نہیں ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’غلام نبی آزاد دعویٰ کرتے ہیں کہ فاروق عبداللہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے رات کو ملنے جاتے ہیں، مجھے رات کو جانے کی کیا ضرورت ہے، میں ایک ممبر پارلیمنٹ ہوں اور میں دن کے اُجالے میں عوامی مسائل لیکر اُن کے پاس جاسکتا ہوں۔ میں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ دیکھیں کہ وہاں اُن کا کون جاسوس بیٹھا ہے، جو ان کو غلط خبریں دے رہاہے۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ آزاد صاحب وہ دن یاد کر جب اُن کا کوئی ساتھ دینے والا نہیں تھا اور یہ نیشنل کانفرنس ہی تھی جنہوں نے اُنہیں کئی مرتبہ راجیہ سبھا کی سیٹیں دلائیں۔ اتنا ہی نہیں جب میں بیمار تھا اُس وقت میں نے اپنی راجیہ سبھا نشست غلام نبی آزاد کو دلوائی لیکن جس شخص نے اُس جماعت کیساتھ وفا نہیں کی جس نے اُسے بنایا ، اُس سے ہم کیا وفا کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔ ‘‘پارلیمانی انتخابات اور نیشنل کانفرنس اُمیدواروں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ ’’ہم بہت دیر سے انتخابات کا انتظار کررہے ہیں، ہمیں اُمید ہے کہ پارلیمانی انتخابات کے علاوہ جموںوکشمیرمیں پنچایتی ،بلدیاتی انتخابات اور اسمبلی انتخابات بھی کروائے جائیں گے۔ جہاں تک نیشنل کانفرنس اُمیدواروں اور میرے سرینگر سے الیکشن لڑنے یا نہ لڑنے کا سوال ہے اس کا فیصلہ پارٹی کرے گی، یہ کسی ایک فرد کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ ‘‘