قاسم سليمانی۔۔۔۔ اقدار کربلا کا عملی پیکر

قاسم سليمانی۔۔۔۔ اقدار کربلا کا عملی پیکر

1957 عيسوی ميں نجيب وشريف خاندان ميں آنکھیں کھولنے والے اور دیہی ماحول میں پروان چڑهنے والے ايک ۲۳ سالہ نوجوان کےکانوں ميں جب وقت کے حسين ، خمينی بت شکن کی “هل من ” کی صدا گونجتی ہے، تو جزبہ انقلاب سے لبریز اس نوجوان کے دل ميں جذبہ ايمانی اس قدر جوش
مارتا ہے کہ دفاع انقلاب کی خاطر اپنی نوجوانی کی آرزوں وامنگوں کوکچل کر عاشقان شہادت وپاسداران انقلاب کے قافلہ سے ملحق ہو کر اپنی منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہوجاتا ہے۔سیدھی سادی طرز حيات اور عزم و وفا یہ پیکر “دلوں کا سردار ” “شہيد قدس ” حاج قاسم سليمانی کہلاتے ہيں۔

ملت ايران جو بے مثال انقلاب اپنے دانا و بينا رہبر کی بے نظير قيادت کے زير سايہ لانے ميں کامياب ہوئی، اس کا محرک بهی کربلا و عاشوره ہی تها اور جس انداز سے اس تحريک انقلاب کی خاطر قيمتی جانوں کا نذرانہ پيش کيا گيا اس میں بھی عاشورائی رنگ ہی جهلکتا ہے ۔اس ليے بانئ انقلاب حضرت امام خمينی نے بارہا فرمايا کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے اسی عاشوره کی بدولت ہے ۔

چونکہ ملت تشيع روز اول ہی سے ظلم و جبر کے خلاف برسر پيکار رہی ہے اور شعار حسينی “هيهات من الذلہ “پر کاربند ره کر ہر دور کے طاغوت کو للکارا اور رسوا کيا ہے،لہذا شہيد قاسم سليمانی و ديگر شہداء بهی اسی شعار کو اپنا کر میدان کارزار ميں کود پڑے اور “مثلی لا يبايع مثلی “کے سرمدی اصول پر قائم و دائم ره کر اپنے پاکيزه لہو سے شمع ولایت و امامت کو فروزاں رکها ۔
کربلائی ثقافت ميں پلنے والے ملت تشيع کے بچے آغوش مادر ہی سے مجاہد بن کر آتے ہيں جب ان کو دنیا میں آتے ہی خاک شفاکی غذا کھلا کر علم کے سايہ ميں پروان چڑهايا جاتا ہے۔
اسلئے جب رہبر کبير قائد انقلاب اسلامی حضرت امام خمينی سے پوچها جاتا ہے کہ تمہارا يہ انقلاب کون لائے گا؟ تو بے ساختہ ہوکر فرماتے ہيں کہ جو ابهی ماوں کی آغوش ميں پل رہے ہيں، اس انقلاب کے سرباز و سپاہی ہیں۔
شہيد قاسم سليمانی و ابو مہدی المہندس بهی مکتب کربلا کے شاگرد رشيد تهے۔ان کی رگوں ميں بهی خون حسين ع کی حرارت شعلہ آور تھی اور انصاران حسين ع کی طرح اپنے ولی کی اطاعت ميں اپنی جان لٹانے کے ليے ہمہ وقت سر بہ کف رہتے تهے ۔
ان کی مجاہدانہ زندگی ميں شہدائے کربلا کےکردار کے جهلک بهر پور موجود تهی۔مہر و وفا،صبر و رضا، عزم و استقلال ،جان نثاری و فداکاری، خلوص نيت و ديگر اعلٰی انسانی صفات سے متصف يہ مرد مجاہد ظالموں سے مرعوب ہوئے بغیر جام شہادت نوش کرنے کيلئے ہمہ وقت بے تاب و بےقرار رہتے تهے ۔ اسی ليے شہيد قاسم سليمانی دور حاضر کےفرعون سے مخاطب ہو کہتے ہيں ” اے جوئے باز ٹرمپ! ہميں مت ڈراو، ہم شہادت طلب قوم ہيں، ہم ملت امام حسين ہيں”جب عالم استکبار کے پرورده خونخوار داعش کے عفريت نے سرزمين عراق و شام پر اپنا منحوس سايہ پهيلا کر ہر طرف قتل و غارت گری کا بازار گرم کر کے عزت و ناموس کو تار تار کرناشروع کر ديا، شہروں کے شہروں کو ملياميٹ کرکے
بستیوں کو راکھ کے ڈهير ميں تبديل کر ديا ،انسانوں کو زنده جلا کر رونگٹے کهڑی کر دينے والی ظلم و جفا کی نئی داستان رقم کی تو ان مظلوموں کی چيخ و پکار اور آه و نالوں نے ان مردان حر اور امام زمانہ کے جانباز سپاہيوں کو بے چين و مضطرب کرديا اور بغير کسی تاخير کے ان لاچاروں کی داد رسی کو پہنچ گئے ۔
يزيدی اسلام کی طرح ان داعشی خونخواروں نے “محمد رسول الله “کے پرچم تلے بے گناہوں کی گردنيں اڑا کر اسلام ناب محمدی کو چہار سمت بدنام کرديا، مگر دين و ولايت کے ان پروانوں اور حسينی سورماؤں نے ان کے اس دهوکے کو بے نقاب کرکے عالم دنيا ميں اسلام ناب محمدی کی حقيقی تصوير کو پيش کيا۔
شہيد قاسم سليمانی و ابو مہدی المہندس کے کردار ميں سرکار وفا علمدار کربلا کے کردار کی جهلک بهر پور موجودتهی۔ايک طرف بےکسوں اور لاچاروں کی آس بن کر ان کی چاره گری کرنا اور دوسری طرف “کلنا عباسک يا زينب “کا نعره لگا کر” مدافعان حرم ” بن کر حفاظت کرنا ۔ ان کی شہادت بهی سرکار وفا کی شہادت سے کيا مختلف تھی کہ وه بهی صحرائے کربلا پر گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور يہ بهی اپنے مولا کی طرح ٹوٹ کر بکهر گئے ۔
ان دو شہدا نے اپنی عظيم شہادتوں سے قوم و قبيلہ، نسلی و لسانی اور عربی وعجمی کے تصور کو بے معنی بناکر عاشورائی سپاہی ہونے کا عملی ثبوت پيش کيا کہ جس طرح ايک حبشی “جون ” زانوئے امام ميں جان دے کر پيغام عدل
و مساوات دے کر چلے گئے ۔
انصار حسينی کی طرح يہ پروانے بهی شمع امامت و ولايت پر اپنی جان لٹانے کے ليے بےتاب تهے ۔آخر کار ان کی دعا باب اجابت سے ٹکرائی اور وه آرزو جس کے حصول ميں انہوں نے بيابانوں اور ريگزاروں کی چهان ماری تهی، وه آرزو
ان کی پوری ہوگئی۔
‏لاکھوں سلام و درود ہو ان شہیدان وفا پر جنہوں نے اپنے پاکیزہ لہو سے شمع انقلاب کو فروزاں کر رکھا ہے۔

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
. نہ مال غنيمت نہ کشور کشائی

‏ سجاد مضطر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں