181

صورتحال کی تبدیلی کے لئے شجاع قیادت کی ضرورت

صورتحال کی تبدیلی کے لئے شجاع قیادت کی ضرورت

تحریر: عادل فراز

آج سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ مسلم قیادت شجاع نہیں ہے ۔ان کی عدم دلیری کی بناپر مسلمان متذبذب اور خوف زدہ ہے۔اس تذبذب اور خوف کی تنہا وجہ مسلم قیادت کاغیر شجاعانہ رویہ ہے ۔آج بھی مسلمان اپنی قیادت کی طرف نگراں ہے،حالات تب تک نہیں بدلیں گے جب تک مدبرانہ اور شجاعانہ سیاسی اقدام نہیں ہوگا۔

ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب میں روز بہ روز اضافہ ہوتاجارہاہے ۔جبکہ اس صورتحال کے بدلنے کی امید کی جارہی تھی ،کیونکہ مسلم دانشور مسلسل سنگھ پریوار سے مل کر حالات بدلنے کی کوشش کررہے تھے ۔البتہ ان ملاقاتوں اور یقین دہانیوں کے بعد بھی نفرت اور عصبیت کم نہیں ہوئی ۔ہریانہ میںجس طرح مسلم نوجوانوں کو زندہ جلایاگیااور اس کے بعد مجرموں کی حمایت میںپنچائتیں کی گئیں ،ریلیاں نکالیں گئی اور ضلع انتظامیہ کو ڈرایادھمکایا گیا،اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ حالات کس قدر تشویش ناک ہیں ۔حال ہی میں مرادآباد میں عبادت کررہے مسلمانوں کے ساتھ بجرنگ دل اور انتظامیہ کا شرم ناک رویہ سامنے آیا۔بجرنگ دل کے کارکنان نے گودام میں تروایح اداکررہے مسلمانوں کے خلاف احتجاج کیا ،جس پر انتظامیہ نے امن عامہ کےتحت مسلمانوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اجتماعی عبادت کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔مہاراشٹرا کے ضلع جالنہ میں تو اس سے بدتر واقعہ رونماہوا۔شرپسندوں نے تراویح کے مقام پر جاکر امام کوزدوکوب کیا ۔صرف اتنا ہی نہیں انہوں نے امام کی داڑھی کاٹ کرپوری امت مسلمہ کے منہ پر طمانچہ رسید کردیا۔مہاراشٹرا میں گذشتہ سال سے مسلمانوں کے خلاف ماحول سازی کی جارہی تھی ۔تقریباً ۳۶ اضلاع میں ۵۰ کے آس پاس مسلم مخالف ریلیاں نکالی گئیں ،جن میں مسلمانوں کی نسل کشی اور ان کےسماجی و اقتصادی بائیکاٹ کی اپیل کی گئی۔ظاہر ہے جب بی جے پی کے نمایاں لیڈر اس طرح کی اپیلیں کرکے آزاد گھوم رہے ہیں ،تو ریلیوں میں بھیڑ کی اشتعال انگیزی کو قابو میں کرنے کے لئے انتظامیہ کیا لایحۂ عمل اپناسکتی ہے؟کیونکہ اس صورتحال کی ذمہ داری حکومت کے ساتھ انتظامیہ پر بھی عائد ہوتی ہے ۔سارا کھیل انتظامیہ کی ناک کے نیچے کھلاجاتاہے اور انتظامیہ گونگی بہری بنی رہتی ہے ۔ حالات کس قدر تشویش ناک ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ ان تمام مسلم دانشوروں نے سنگھ سربراہ موہن بھاگوت کو خط لکھ کر حالات پر غم و غصے کا اظہارکیاہے ،جو اب تک موہن بھاگوت سے مل کر حالات کے خوشگوار ہونےکی امید کررہے تھے۔ان دانشوروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ سنگھ کسی بھی حال میں اپنا سیاسی و جماعتی ایجنڈہ ترک نہیں کرسکتا ،جو آزادی سے پہلے ترتیب دیاجاچکاہے ۔اس ایجنڈہ کو بدلنے کہ ہمت نہ موہن بھاگوت میں ہے اور نہ کسی دوسرے لیڈر میں ۔بہتر ہوتاکہ حالات کی تبدیلی کے لئے خود کوئی شجاعانہ اقدام کرتے ،جس کی فی الوقت اشد ضرورت ہے۔

وائٹ وائن سے دن کا آغاز کرنے والا یہ دانشور طبقہ مسلمانوں کا ہمدرد کب ہوا،نہیں معلوم ۔یہ لوگ نہ تو کبھی مسلم مسائل کے تئیں سنجیدہ نظر آئے اور نہ ان کی تہذیب و ثقافت مسلمانوں کی آئینہ دار ہے ۔اس کے باوجود انہیں مسلمانوں کی فکر لاحق ہوئی ،یہ ایک چونکانے والی خبر تھی ۔انہوں نے سنگھ پریوار کے ساتھ اپنے رشتے استوار کئے ۔مسلمانوں کے تئیں اظہار ہمدرد ی کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کی ۔سنگھ سربراہ موہن بھاگوت نے بھی انہیں یقین دہانی کرائی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہیں ۔کئی مرتبہ موہن بھاگوت نے اپنی تقریروں میں موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے تبدیلی کے عزم کا اظہار کیا ۔مسلمان دانشور پھولے نہیں سمارہے تھے ۔انہیں محسوس ہواکہ جو کام مسلم قیادت نہیں کرسکی وہ ہم نے کردکھایا ۔اس دانشور طبقے نے ایک لمحے کے لئے پوری امت مسلمہ کو ششدر کردیاتھا،لیکن جب حالات میں یکسر تبدیلی رونما نہیں ہوئی تو مسلمانوں پر ان ملاقاتوں کی حقیقت واشگاف ہونے لگی ۔یہ طبقہ فقط اپنے مفادکی تکمیل کے لئے مسلمانوں کی فکر میں سرگرداں نظر آرہا تھا ۔ان میں سے بعض پہلے منصب اور خلعت سے نوازے جاچکے تھے اور بعض کو سنگھ کی رکنیت لینے کے بعد نواز ا گیا ۔لیکن ملّی مسائل جوں کے توں رہے اور کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔

تمام خوش فہم دانشوروں کی طرح مسلمان بھی یہ باور کررہے تھے کہ حالات بدلیں گے ۔جس یقین کے ساتھ آرایس ایس نواز مسلمان میڈیا میں بیان دے کر قوم کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہے تھے اس سے اندازہ ہورہاتھاکہ اب سنگھ کے رویےمیں خوشگوار تبدیلی واقع ہوگی۔سنگھ پریوار مسلمانوں کے درمیان نفوذ چاہتاہے ،اس کے لئے مختلف ذیلی تنظیمیں بنائی گئیںجن کی منصبی ذمہ داری ظاہراً مسلمانوں کے سپرد کی گئی ۔ان تنظیموں کاہدف مسلمانوں کے پسماندہ طبقات کو اپنی طرف جذب کرناہے ۔ایسے علاقوں کو خاص طورپر ’پرچار‘ کے لئے منتخب کیاگیاجہاں پسماندہ مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو۔انہیں سبز باغ دکھلائے جارہے ہیں ۔انہیں خوش کرنے اور دکھاوے کے لئے عہدے دیئے جارہے ہیں ۔ان کے بچوں کے مستقبل کے بارے میں بیانات دے کر انہیں راغب کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے ۔یوں بھی بی جے پی میں دوطرح کے مسلمانوں کی دلچسپی زیادہ ہے ۔ایک تو وہ پسماندہ مسلمان جو آرایس ایس کی ذیلی تنظیموں کے پروپیگنڈے کا شکار ہوئے ہیں ،ان کےدرمیان سنگھ کے لوگ مسلسل ’پرچارک‘(مبلغ) کی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں ۔اس طبقے کے ووٹ میں سیندھ لگانا ان کا پہلا ہدف ہے ،جو شاید پورا بھی ہوجائے ،کیونکہ مسلمان لیڈروں اور مسلم تنظیموں کو اس طبقے کی چنداں پرواہ نظر نہیں آتی ۔اگر ایساہوتا تو اب تک ان طبقات کے درمیان جاکر سنگھ کے پروپیگنڈے کو باطل کرنے کی جدوجہدکی جاتی،مگر ایسا نہیں ہوا۔دوسرا گروہ ان مسلمانوں کا ہے جو اپنے مفاد کی تکمیل کے لئے آرایس ایس اور بی جے پی میں رکنیت لے رہے ہیں ۔اس گروہ میں ہر طبقے اور فرقے کے مسلمان شامل ہیں ۔ان کا بنیادی ہدف اپنے مسائل کو حل کرواناہے ،جس کے لئے وہ کسی بھی حدتک جانےکو تیار نظر آتے ہیں ۔اس طبقے نے تملق پرستی کی تمام حدوں کو پارکیاہے ۔ایسے لوگ اپنےآقائوں کو خوش کرنے کے لئے مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں۔ بی جے پی کے سیاہ کارناموں کی پردہ پوشی اورسماجی جرائم کے سیاسی جواز تلاش کرکے ملت کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس گروہ کی بے ضمیری اب ڈھکی چھپی نہیں ہے ،اس لئے عام رائے ان کے موافق نہیں ہے ۔یہ گروہ مسلمانوں میں منفور ہے کیونکہ اس کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود اور ان کے مسائل سے وابستہ نہیں ہے ۔مفادپرستوں اور چاپلوسوں کی بناپر وہ مسلمانوں کو اپنی طرف جذب نہیں کرسکتے ،یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے ۔جن مسلمان لیڈروں اور دانشوروں کو سنگھ پریوار نے اپنے حلقۂ اثر میں شامل کیاہے ،ان کی سماجی اور عوامی حیثیت کیاہے ؟آیا اس پر انہوں نے کبھی غور کیاہے۔جن لیڈروں کو پہلے عوامی مقبولیت حاصل تھی ،بی جے پی اور سنگھ نوازی کے بعد ان کی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے ،اس کے لئے ایک عوامی سروے کروایاجاسکتاہے۔

ایسانہیں ہے کہ مسلمان قطعاً بی جے پی کو منفور جماعت سمجھتاہے بلکہ وہ اس کے نفرت آمیز ایجنڈے کے خلاف ہے ۔اگر بی جے پی چاہتی ہے کہ مسلمان اس کی طرف راغب ہوں تو اسے اپنے سیاسی ایجنڈہ میں بدلائو لانا ہوگا،جو ممکن نہیں ہے ۔کیونکہ مسلمانوں کو رام کرنے کے لئے وہ اپنے ووٹ بینک کو دائو پر نہیں لگاسکتے ۔یہ ووٹ بینک مسلمانوں کو ہندوستان کا وفادار تسلیم نہیں کرتا ۔وہ چاہتاہے کہ مسلمانوں کو دیوار سے لگادیاجائے اور جس قدر ممکن ہوان پر ظلم کا سلسلہ دراز کردیاجائے ۔ان کی سیاسی مآب لنچنگ ہواور سماجی سطح پر ان کا کوئی پرسان حال نہ رہے ۔ایسے متشدد ووٹ بینک کے خلاف جانا اب بی جے پی اور سنگھ کے دائرۂ اختیار سے بھی باہر ہے ۔جن لوگوں کی عرصۂ دراز سے مسلمانوں کے خلاف زہن سازی کی گئی ہو،اچانک انہیں مسلمانوں کا ہمدرد نہیں بنایاجاسکتا۔

موجودہ ابتر صورت حال کے لئے ہم کسی دوسرے کو ذمہ دار نہیں ٹھہراسکتے ۔اس کے لئے صرف اور صرف ہم ذمہ دار ہیں ۔آزادی کے بعد سے آج تک حکومت یا انتظامیہ مسلمانوں کے تئیں مخلص اور ہمدرد نہیں رہی ۔حالات نے جب بھی کروٹ بد لی تو اس میں مسلم قیادت نے نمایاں کردار اداکیا۔لیکن فی الوقت مسلمانوں کی قیادت شجا ع نہیں ہے ۔اس کےپاس بصیرت اور قوت فیصلہ کا فقدان ہے۔اس میں حالات سے نپٹنے اور صورتحال کو بدلنے کا جذبہ نظر نہیں آتا ۔آزادی کے بعد جتنے مسلم کش فسادات رونما ہوئے کیا ان فسادات میں حکومت اور انتظامیہ مسلمانوں کے تئیں مخلص تھی؟ کیا اس وقت بھی بی جے پی برسراقتدار تھی؟ مسلم کش فسادات تو ہر سیاسی جماعت کےدور اقتدار میں رونماہوئے ہیں ،اس لئے یہ نہیں کہاجاسکتاکہ آج مسلمانوں کے تئیں سرکار اور انتظامیہ کا رویہ متعصبانہ ہے،کل ایسانہیں تھا ۔آج سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ مسلم قیادت شجاع نہیں ہے ۔ان کی عدم دلیری کی بناپر مسلمان متذبذب اور خوف زدہ ہے۔اس تذبذب اور خوف کی تنہا وجہ مسلم قیادت کاغیر شجاعانہ رویہ ہے ۔آج بھی مسلمان اپنی قیادت کی طرف نگراں ہے،حالات تب تک نہیں بدلیں گے جب تک مدبرانہ اور شجاعانہ سیاسی اقدام نہیں ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں