اسلام کے دامن میں دو واقعات ایسے ہیں، جسے کوئی بھی اپنی زندگیوں میں فراموش نہیں کر سکتا ہے۔
تحریر : ڈاکٹر شجاعت حسین
اسلام کے دامن میں دو واقعات ایسے ہیں، جسے کوئی بھی اپنی زندگیوں میں فراموش نہیں کر سکتا ہے۔ اس کو پڑھ کر اپنی زندگی، اعمال و آخرت کو سجانے اور سنوارنے کے لیے بہترین مثال ہے۔ ایک جناب حر جو ایک وقت دشمن اور پھر سب سے پہلے اپنے بیٹے اور غلام کے ہمراہ قربان ہوا۔ دوسرا، عبد الرحمن بن ملجم حضرت علیؑ عاشق پھر جان لیوا ضربت حالت سجدے میں۔ یہ مثال صدر ایران، سید ابراہیم رئیسی طاب ثراہ، رہبر معظم انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران، آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ، دیگر مراجع عظام اور رہنما، اعلٰی فوجی اہلکار اور ماہرین تفتیش شازش کے پیش نظر ہے۔ سید ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو اس نظریے سے تاریخ کے اوراق میں تلاش کرنا ہوگا۔
10 محرم، 61 ہجری کی تاریخ جس روز نواسہ رسولؐ، جگر بتولؑ، پسر شیرؑ خدا، برادر حسنؑ، زینبؑ و کلثومؑ، سید الشہداءؑ حضرت امام حسین علیہ السلام کی آفاقی و ابدی صدا ‘ہے کوئی جو میری مدد کرے، حضرت قاسمؑ کا لہجہ “موت شہد سے زیادہ شیریں، حضرت اصغرؑ کی مسکراہٹ سے موت کو ختم کرنا، حضرت اکبرؑ کا فرمانا “حق کے لئے موت مجھ کو ختم کرے یا میں موت پر قابض ہوں دونوں ہی برابر ہے”، انسانیت کی بننے والی آواز، باطل قوتوں سے ٹکرانے والے، امر با لمعروف و نہی عن المنکر کی انجام دہی کرنے والے اور راہ خدا میں جان قربان کرنے والے موت کی طرف اس طرح حملہ کرتے ہیں جیسے شیر اپنے شکار کی طرف حملہ آور ہوتا ہے۔
19 مئی بروز دو شنبہ 2024 کے نو شہدائے خدمت نے موت کے حوالے سے مذکورہ بالا فرمودات پڑھا، سنا اور اس کو گلے لگانے کے عمل میں کوشاں رہنا، تمنا کرنا، مقدسات اہلبیت علیہم السلام پر دعائیں مانگتے رہنا اور اس کو عملی شکل دینے کے لئے ہمیشہ منہمک و متحرک رہنا تاکہ انھیں زرد موت میسر ہو، شہادت نصیب ہو کیونکہ ان شہدائے کربلا کی آواز، تمنائیں اور پیغام سدا کانوں میں گونجتے رہی ہوں گی۔ عالمی سطح پر طوفان ستم میں وہ پرچم جو کبھی حضرت حمزہؑ، حضرت علیؑ اور کبھی حضرت عباس علمدارؑ کے ہاتھ میں رہا، ہندہ لعنت اللہ نے حضرت حمزہؑ کا جگر چبایا، عبد الرحمن بن ملجم لعنتہ اللہ نے 19 رمضان المبارک کی فجر کی پہلی رکعت کے پہلے سجدے میں ضربت لگائی اور حضرت عباس علمدارؑ کے 10 محرم، عصر عاشور دونوں بازو قلم ہوئے، لہٰذا ایمان، اسلام، انسان اور خوشنودی الٰہی کے لیے عزم مستحکم کے ساتھ خدمت شہداء نے باطل قوتوں پر حق و انسانیت کا پرچم بلند کرنے کے لئے کبھی تھکن محسوس نہیں کیا۔
یاد رہے کہ 19 مئی کو آذربائیجان کی سرحد پر ڈیم کی افتتاحی تقریب سے واپس آتے ہوئے موسم کی خرابی کے باعث ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں صدر جمہوریہ اسلام ایران آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی، امام جمعہ تبریز آیت اللہ سید محمد آل ہاشم، وزیر خارجہ ڈاکٹر حسین امیر عبد اللہیان، مشرکی آذربائیجان کے گورنر (تبریز) آقائ مالک رحمتی، صدر کے یونٹ کے کمانڈر سردار سید مہدی موسوی، باڈی گارڈ، ہیلی کاپٹر کے پائلٹ اور کو پائلٹ سوار تھے۔ ایرانی حکام نے 20 مئی کی صبح ایرانی صدر، وزیر خارجہ سمیت دیگر کی شہادت کی تصدیق کی تھی۔ ہیلی کاپٹر پر 9 افراد سوار تھے۔
راقم الحروف نے عام و خواص کے ذہنوں کے سوالوں کے جوابات کو تلاش کرنا شروع کیا تو زیادہ ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں پڑے۔ صدر رئیسی اور وزیر خارجہ ڈاکٹر عبد اللہیان کی شہادت کے حوالے سے دریافت کیا کہ کیا ایران کی اندرونی معاملات و حالات یا خارجہ پالیسی، سفارت کاری و رشتہ استوار کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا تو اوراق کی گردانی جیسے 3 جنوری 2020 عیسوی بروز جمعہ بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب امریکی ڈرون نے حملہ کر جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ہمراہ عراقی ملیشیا کے کمانڈر، ابو مہدی المہندس، حشد الشعابی شہید ہوئے تھے تو یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ اب کیا ہوگا، لیکن الحمدللہ، ایران میں لاکھوں قاسم سلیمانی پیدا ہوئے اور بیرون ممالک میں بھی، جیسا کہ موجودہ دور میں حماس، فلسطین کے متعدد مقاومتی گروپ، عراق و شام میں موجود مزاحمتی تنظیمیں، حزب اللہ و حوثی نے غاصب، قاتل و باطل قوتوں کو ذلت آمیز شکست فاش دیا ہے اور ان کے وجود کو زوال و پسپائی لاحق ہے۔ اسی طرح ان شاءاللہ ایران اور بھی زیادہ مضبوط ہوکر ابھرے گا، اسلام ، انسانیت، مساوات، ہم آہنگی اور امن کا پرچم بلند ہو کر رہے گا۔
صدر سید ابراہیم رئیسی کی 64 سالہ زندگی ایک ایسا سبق ہے جو حوزہ میں طلباء و طالبات، مومنین و مومنات، علماء کرام و ذاکرین، سامعین و ناظرین، اعلٰی عہداداران و سیاستدانوں کے لیے قابل مطالعہ اور اتباع ہے۔ جب محض پانچ سال کے تھے تب ہی عطوفت پدری سے محروم ہوگئے۔ آپ کے سامنے اپنی تعلیم، مستقبل، والدہ ماجدہ اور امور خانہ کی ذمہ داریاں۔ شب و روز کی محنت اور مشقت، حضرت اکبر علیہ السلام کے سن میں حضرت امام خمینی رحہ کی رہنمائی میں انقلاب اسلامی، ایران میں پیش پیش رہے، عراق کی جانب سے مسلط کردہ جنگ میں بھی فوج میں شامل ہوکر ملک کی حفاظت کی، چھوٹے اور معمولی عہدے سے گزرتے ہوئے خادم روضہ حضرت امام علی رضا اور اس سے منسلک کمپنیوں کی نگرانی کی، ملک کے چیف جسٹس مقرر ہوئے اور ابھی وہ ملک کے صدر تھے۔ آپ نے کبھی اعلٰی عہدہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ تمنائی رہے۔ آپ کی قابلیت ان عہدوں کے حقدار بنایا۔
آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی طاب ثراہ کی حیات اور کارناموں کو آئینہ حضرت امام علیؑ ابن ابی طالب علیہ السلام میں دیکھنا ہوگا۔ حضرت علیؑ کو اللہ پاک اور تاجدار انبیاء ﷺ نے پہچانا۔ اب جس میں جتنی بصیرت ہوگی اتنا ہی رئیسی طاب ثراہ کو پہچان پائے گا۔ اب قارئین کرام کو آپ کو دیکھنا ہے تو دنیا کی نگاہ میں، کسب حلال کی جدوجہد، اخلاق، علمی حیثیت، زہد و تقویٰ، اصابت رائے، سیاست، حلم، صداقت، عدل، صبر، شکر، تعمیری و تشکیلی کام، اور قابل ذکر ہے کہ سید رئیسی خود چھٹیوں میں بھی بعض علاقوں میں جاکر کام کے انجام دہی کا معائنہ کرنا یا ضرورتمندوں کی حاجت روائی کرنا۔ سادگی، عاجزی، علم، دانش و ادراک کے اعلٰی نمونہ تھے۔
شہادت اہلبیت علیہم السلام اور آپؑ کے ماننے اور چاہنے والوں کے لیے وراثت اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ وہ موت سے مایوس نہیں ہوتے۔ عدل، حق، انصاف، انسانیت، ترقی، ہمدردی، محبت، مساوات، حقوق، امن و سکوں کا طاغوتی طاقت ہمیشہ سے دشمن رہا ہے۔ آغاز اسلام سے جنگیں ہوئیں اور قربانیاں پیش کی گئیں۔ تاریخ گواہ ہے اور آج چشم دید گواہ ہیں۔ جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا، حضرت علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام اور کربلا کے 72 شہیدوں کی قربانیاں دیں۔ کیا قربانیاں پیش کرنا بند ہو گئیں یا رک سکتی ہے؟ قطعی نہیں۔ قربان ہونے کے لئے آمادہ رہنا ہوگا، اگر ایمان، انصاف، انسانیت اور امن کے پیغام کا پرچم بلند کرنا ہے۔ اسلام کے آغاز و فروغ کے دوران نقاب کشائی کی گئی تو ابو لہب، ابو جہل، سفیان، معاویہ، یزید، اس کے پہلے نمرود، فرعون اور شداد، اور 1979 میں امام خمینی رحہ نے عالم انسان اور اسلام کو پہچان بتا دیا “شیطان بزرگ اور اس کی ناجائز اولاد” اور اس کے خاتمہ کا راستہ بتایا، صرف ایک بالٹی پانی، حسن نصراللہ دام ظلہ الوارف نے اسے مکڑی کے جالے سے بھی کمزور قرار دیا اور رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای رضوان اللہ عنہم اجمعین نے اس کی نابودی 25 برس کے دوران طے شدہ ہے۔ ایک اہم بات کا تذکرہ لازمی ہے اسلام نے جتنی جنگیں لڑیں وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے ارد گرد رہیں۔ اس وقت کفار، مشرکین، منافقین اور مخالفین حجاز میں تھے آج بھی اسلام کے لباس میں ملبوس ہیں۔ ان سبھی ملعون لعنت اللہ کی شناخت ہوگئی ہے۔ کامیابی و کامرانی کے لئے دشمن شناسی لازمی ہے۔
صدر مملکت آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی طاب ثراہ کی شہادت پر آیتہ اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای رضوان اللہ نے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم نے اپنے ایک مخلص، گراں قدر اور دل سے پیار کرنے والے خدمت گزار کو کھو دیا ہے۔ ان کے لئے، عوام کی بھلائی اور ان کی رضامندی جو خدا کی غماز ہے، ہر چیز سے زیادہ ترجیح رکھتی تھی اور اسی لئے کچھ لوگوں کی ناشکری اور بعض بد خواہوں کے طعنے انھیں ترقی و پیشرفت اور امور کی اصلاح کے لئے شب و روز سعی پیہم سے نہیں روک پاتے تھے۔ عزیز رئیسی تھکن کو جانتے ہی نہیں تھے۔
رہبر معظم نے کہا کہ شہید ڈاکٹر رئیسی کو کھو دیتا ہمارے لیے سخت ہے۔ شہید صدر کی نماز جنازہ اور الوداعی رسومات میں 60 سے زائد سربراہان مملکت کی شرکت اور 40 لاکھ محبان شہداء کی شرکت اس بات کی شہادت و علامت ہے کہ وہ کتنے مقبول، دیانتدار،نمونہ تحریک مقاومت، دل مظلومین اور کرامات کے مالک تھے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی صدر اور ان کے محترم ساتھیوں کی نماز جنازہ پڑھائی اور شہید ابراہیم رئیسی کے جسد خاکی کو حرم امام رضا علیہ السلام کے رواق دارالحفاظ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ آپ اپنی عظمت، فضیلت، خدمت، صداقت، محنت، مشقت، مقاومت، دیانت، رفاقت، ہمت و محبت کے لیے لوگوں کی فکر، احساس اور پیغام کی طرح اسلام، انسانیت اور امن کے پرچم کو بلندی کے لئے طوفان و چٹان سے مقابلہ کرتے رہیں گے، ان شاءاللہ! پروردگار آپ کو اور آپ کے رفقاء کو چہاردہ معصومین علیہم السلام کے جوار رحمت میں مقام عطا فرمائے! آمین ثمہ آمین یا رب العالمین!