WhatsApp Image 2023-02-08 at 7.44.36 PM

شہداء اور شہادت

شہداء اور شہادت

شہادت کی موت وہ موت جس کو ہر کوئ قبول نہیں کرسکتا ہے جسے ہر کوئ نہیں چن سکتا ہے کیونکہ ہی وہ موت ہے جسے انسان اپنی مرضی اور خوشی سے چنتا ہے، شہادت وہ موت ہے جس کی طرف انسان خود قدم بڑھاتا ہے اور وہ انسان اسی شہادت کے ذریعے موت کو ہرا دیتا ہے موت کو شکست دیتا ہے موت کو مایوس کرتا ہے شہادت ابدی زندگی ہے جو موت کی طرح انسان کے پاس نہیں آتی ہے بلکہ انسان خود اسکے پاس جاکر اسے حاصل کرتا ہے۔

شہادت اور شہداء کی اہمیت اور قدر ہم بیان کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ شہداء اور شہادت کی قیمت دنیا میں کوئ نہیں جانتا ہے نہ ہی دنیا میں کوئ شہداء کی قیمت کا اندازہ لگا سکتا ہے شہداء کی قیمت خدا کے بغیر کو نہیں جان سکتا ہے کیونکہ شہداء کا خریدار خدا خود ہے۔

شہادت کی بہت قسمیں ہیں البتہ ان میں سب سے زیادہ خدا کی راہ میں جہاد ہے۔خدا کی راہ میں شہادت پانا۔

خدا نے قرآن میں ان انسانوں کو زندہ قرار دیا ہے جن کا ضمیر زندہ ہے اور مردہ ضمیر بے بصیرت انسان کو خدا نے قرآن میں مردہ کہا ہے اگر چہ یہ مردہ بظاہر چلتا ہے، کھاتا ہے ، بات کرتا ہے، دیکھتا ہے لیکن حقیقت میں مردہ ہے۔
زندہ انسان شہداء کی مانند با بصیرت، روشن ضمیر انسان کو کہا گیا ہے جو حلال اور حرام میں فرق جانتے ہیں ، جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر انجام‌ دیتے ہیں بے شک وہی لوگ شہداء ہیں اور وہی لوگ زندہ ہے۔
آج کی اس ہنگامہ خیز دنیا میں جہاں ہر طرف ظلم‌ عروج پر ہے مظلوم کے ظلم پر دنیا خاموش ہے ایسی دنیا میں زندہ انسان خود کو قیدی سمجھتا ہے جس کے لۓ یہاں موت کی زندگی بسر کرنا محال ہے ایسا زندہ دل انسان زندگی پانے کے لۓ ذلت سے دور نکل کر شہادت کا انتخاب کر کے عزت کی موت مرتا ہے ایسے انسان کی بہترین مثال میں شہید سردار سلیمانی رح کے ذریعے دوں گا جن کی زندگی پڑھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ انہوں نے کس طرح اپنی پوری زندگی بھی شہید کی طرح گزاری ہے جس کہ وجہ سے ان کو زندہ شہید کا لقب بھی دیا گیا تھا اور آخر خدا بھی مجبور ہوا اپنے اس حقیقی عاشق کو اپنے پاس بلانے پر انہیں خریدنے پر۔
کتنے عضیم‌ ہیں شہداء کہ جنہیں خدا خرید لیتا ہے۔کیا ہماری زندگی شہداء کی طرح بسر ہوتی ہے یا ہم پیدائیش سے لے کر ابھی تک موت کی زندگی جی رہیں ہیں ہمیں اپنی زندگی کا محاسبہ کرنا چاہۓ کہ آیا کہیں ہماری زندگی یزید کے نقش قدم پر وقف تو نہیں ہو رہی ہے کہیں ہمارا راستہ یزیدیت کی راہ سے تو نہیں ملتا ہے؟

ہم جب تک‌ خود‌ کو اپنے ضمیر کو ظلمت سے آزاد کرنے میں کامیاب نہیں ہونگے تب تک محال ہے کہ ہم ظالم‌ حکومتوں کے ظلم‌ سے خود کو آزاد کرسکیں۔

اس ظلمت کے دور میں جہاں باطل‌ پر لبیک کہنا اور حق پر خاموش رہنا روا ہے اس دور میں شہدا ء کا مشن جو انصاف اور آزادی کے بارے میں سوچتے ہیں اور انبیاء کرام کے عظیم آئیڈیل پر یقین رکھتے ہیں ہر ممکن حد تک اس موت کے بازار، ظلمت کی دنیا میں مزاحمت اور تقویٰ کی ثقافت کا تحفظ کرتے ہیں۔ شہداء اپنے‌خون‌ سے باطل اور حق میں فرق کو بیاں کرتے ہیں اور مردہ قوم کے لۓ ایک مقصد چھوڑ کر خدا کے پاس جاتے ہیں۔

ہر شہید ایک طلوع فجر ہوتا ہے جو آسمان کے افق پر طلوع ہوتا ہے اور صبح کا سورج بن جاتا ہے۔
ایک شہید کی شہادت یقینا اس کی دنیاوی زندگی سے کہیں زیادہ قیمتی اور موثر ہے۔ جب کوئی شخص طہارت کی اس منزل تک پہنچ جاتا ہے تو خدا اس انسان کو شہادت کا درجہ دیتا ہے۔

شہادت موت نہیں بلکہ ایک انتخاب ہے ۔

قرآن مجید میں ان لوگوں کے بارے میں واضح طور پر دس آیات ہیں جو خدا کی راہ میں مارے گئے ان آیات میں جن امور کا تذکرہ کیا گیا ہے ان میں
شہید کی بقا
شہید کا رزق
شہید کے گناہوں کی معافی
شہید کے اعمال
شہید کی خوشی اور مسرت
الہی رحمت میں داخل ہونا اور شہید کی نجات

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت ایک حدیث موصول ہے:

شہید کی سات خصوصیات ہیں۔

1. جب اس کے خون کا پہلا قطرہ جو زمین پر گرتا ہے اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں

2. اس کا سر جنت کی ازواج مطہرات یعنی حور العین کی گود میں رکھا جاتا ہے وہ اس کے چہرے سے خاک نکالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سلام ہو آپ پر۔

3. شہید کو آسمانی لباس سے ڈھانپ لیا جاتا ہے۔

4. جنت کے خادم شہید کے لۓ جنت کے خصوصی عطورات شہید پر استعمال کرتے ہیں۔

5.شہید مرتے وقت جنت می اپنے گھر کو دیکھتا ہے۔

6. اس کی روح سے کہا جاتا ہے کہ وہ جہاں چاہے جنت میں آرام کرے۔

7. وہ خدا کے چہرے کو دیکھتا ہے اور انبیاء اور شہدا کے لئے یہ ایک خاص راحت ہے

۔

شہداء کا درجہ اتنا بلند ہے کہ قیامت میں انبیائے کرام کی حیثیت سے وہ اسی درجے پر ہوں گے۔

کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں:
تین گروہ قیامت کے دن شفاعت کریں گے اور ان کو ثواب ملے گا:
انبیاء ، پھر علماء ، پھر شہداء
یہ وہ تین گروہ ہیں جن کی شفاعت قیامت کے دن قبول ہوگی

واضح رہے کہ‌ شہادت ہر کسی کے بس میں نہیں ہے بلکہ ایک ایسا شخص شہید بنتا جو خدا پر یقین رکھتا ہے اور جہاد میں حصہ لیتا ہے اور خدا کی خاطر لڑتا ہے ،خدا کی خاطر خون‌ میں لت پت ہوتا ہے ،خدا کی خاطر ہی زندگی گزارتا ہے اور اگر کسی انسان کے پاس یہ شرطیں نہیں ہیں تو وہ جہاں کہیں بھی‌ہو ایسے انسان کے قتل ہونے پر اسے شہادت نہیں مل سکتی اور نا ہی اسے شہید سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک نبی (ص) کی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے:

کوئی میدان جنگ میں مارا جائے گا اور خدا کی بارگاہ میں وہ کہے گا:
میں تمہارے راستے میں مارا گیا اس کا جواب ہوگا:

تم جھوٹ بول رہے ہو۔ کیونکہ آپ نے لڑائی کی تھی اور آپ کا ارادہ یہ تھا کہ آپ کو دنیا بہادر سمجھے۔
خدا صرف پرہیزگاروں کو قبول کرتا ہے اور خدا پرہیزگاروں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔
واضح رہے کہ شہید کے غسل ، کفن اور تدفین کے حالات بھی ان لوگوں سے بہتر ہیں جنہوں نے دنیا کو الوداع کہا ہے:

شہید کو اسی لباس سے دفن کیا جاتا ہے جو اسنے پہنا ہوتا ہے اور غسل کے بغیر ، جیسے اس کا جسم ہے لہو سے داغدار ، ایک ہی چیز جو شہید کی تدفین کی تقریب میں دوسروں کے ساتھ مشترک ہے وہ ہے نماز جنازہ۔

آخر پر دعا گو ہوں خدایا ہمیں توفیق دے کہ ہم بھی شہداء کی طرح زندگی گزاریں اور ذلت کہ زندگی سے دور رہیں

تحریر:
حیدری فدا حسین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں