Sultan Salahuddin Ayyubi
توصیف احمدوانی ڈائریکٹر سید حسن منطقی اکیڈمی اونتی پورہ کشمیر انڈیا
سلطان صلاح الدین یوسف بن ایوب ایوبی
سلطنت کے بانی تھے ان کا نام دنیا کے مشہور فاتحین اورحکم راناوں میں شامل ہے
ان کی سلطنت شام ،عراق ، فلسطین جورڈن ، حجاز ، مصر اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی سلطان صلاح الدین کو ان کی بہادری رحم دلی اور فیاض یابی اور سخاوت کی بن پر نا صرف مسلمانوں بالکل دوسری اقوام جیسے عیسائیوں ، یہودیوں اور دوسرے غیر مسلم بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں
سلطان عماد الدین زنگی کے دربار میں صلاح الدین کے والد نجم الدین ایوب اور چچا اسد الدین ایوب شیرکوہ ایوب بطور فوجی فرائض سرانجام دیا کرتے تھے
عماد الدین زنگی کے ایک غلام نے ان کو قتل کر دیا عماد الدین زنگی کے چار بیٹے تھے ان میں سب سے طاقتور نور الدین زنگی تھاا صلاح الدین۔ تھا صلاح الدین کے والد اور چچا نے نور الدین زنگی کے ساتھ دیا سلطان نور الدین زنگی بہت طاقتور اور مضبوط دماغ کے مالک تھے وہ جنگ کرنا اور جنگ جیتنے کا گر جانتے تھے اس لیے اس نے بہت سارے علاقے فتح کیے اور ایک مضبوط سلطنت کے حکمران بن گئے
سلطان صلاح الدین یوسف بن ایوب 1138ء میں عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے یہ وہی علاقہ ہے جہاں عراق کے سابق صدر صدام حسین پیدا ہوے تھے صلاح الدین ایوبی ایک کرد قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ان کے والد کا نام نجم الدین ایوب تھا وہ اک فوجی افسر تھے وہ پہلے عماد الدین زنگی اور بعد میں سلطان نور الدین زنگی کی فوج میں آفسر رہے صلاح الدین ایوبی نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی بعد میں اک مدارسے میں داخل ہو گیے صلاح الدین کو تعلیم کا بڑا شوق تھا وہ بہت کمال کی تلاوت کرتے تھے ان کی آواز بہت پیاری تھی اسی طرح دربار میں تلاوت کا کمپیٹیشن ہوا صلاح الدین ایوبی کی آواز سب کو پسند آئی اسی طرح سلطان نور الدین زنگی سے انکی ملاقات ہوئی یہی سے کہانی شروع ہوتی ہے۔
صلاح الدین ایوبی نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی فوج میں شمولیت اختیار کر لی اور اپنی قبولیت اور جنگی صلاحیتوں کی وجہ سے جلد ہی سلطان نور الدین زنگی کی فوج میں افسر بن گئے جب سلطان نور الدین زنگی نے مصر پر حملے کا حکم دیا تو اس وقت صلاح الدین ایوبی کے چچا اسد الدین شیر کوہ شیر کوہ ایوب نور الدین زنگی سلطان کی فوج کے سپہ سالار تھے مصر کی فتح کے بعد سلطان نور الدین زنگی نے صلاح الدین ایوبی کو مصر وائسرائے اور حاکم مقرر کر دیا
” النوادرا سلطانیہ” کے مطابق صلاح الدین ایوبی مصر کے حکم بنانے پر راضی نہیں تھے مگر انہوں نے سلطان نور الدین زنگی کے اصرار پر یہ عہدہ قبول کیا عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ مزاد پرہیزگار بن گیے سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی تمام تر کوششوں سے اک ایسی سلطنت قائم کی جو اپنے وقت کی سب سے طاقتور اور مضبوط سلطنت تھی اس لیے سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ا جب اللّٰہ میاں نے مجھے مصر کی سلطنت عطا فرمائی تو میں سمجھ گیا کہ فلسطین بھی مجھے دینا اللّٰہ نے منظور کیا ہے اور پھر سلطان نور الدین زنگی کی وفات کے بعد صلاح الدین ایوبی سلطان بن گئے
حکمران بنانے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی کا واحد بیت المقدس کو آزاد کروانا تھا جو کہ عیسائی کے قبضے میں تھا یہ وہی بیت المقدس ہیں جہاں پر حضرت محمّد نے معراج کے موقع پر انبیاء کرام کی امامت کروائی اور یہاں سے آسمان پر تشریف لے کر گیے بیت المقدس یروشلم شہر میں واقع ہے جو اسلام سے پہلے رومن بازنطینی سلطنت کے پاس تھا بعد میں حضرت عمر کے دور میں 638 ء اس کو فتح کیا گیا اس کے بعد یروشلم اسلامی سلطنت میں شامل رہا جسے جسے مسلم سلطنت مظبوط ہوتی گئی تو یہ شہر مسلم آبادی اور ثقافت والا شہر بن گیا لیکن مسلم خلفاء کے حکم پر یہاں پر تمام مزاہب کے لوگ آرام سے اپنی عبادت کر سکتے تھے اور اپنے طریقے سے عبادت کر سکتے تھے یہاں تک کہ غیر مسلم یہاں آ کر گانا اور رقص کرنا شروع کر دیا اور دوسرے گندے میں شامل ہوگئے تو خلیفہ نے سختی شروع کر دی اور کہا یہ کام نہ کرو یروشلم کے تقدس کا خیال رکھو اور جو گندے کام کرے گا ان کو سزا دی جائے گی
پہلی صلیبی جنگ 1096_1095
ایک راہب پیٹر نے لوگوں کو مسلمانوں اور خلیفہ کے خلاف اکسایہ اور کہا یہ عیسائیوں پر ظلم کر رہے ہیں اس نے یورپ کے مختلف ممالک کا دورہِ کیا اور معصوم عیسائی کو مسلمانوں کے خلاف اکسایہ ۔
1095ء عیسائیوں کے پوپ نے یہ حکم جاری کر دیا کہ وہ یروشلم کو مسلمانوں سے آزاد کرواے اور یروشلم کی مظلوم عوام کا ساتھ دے اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں انہوں نے اس جنگ کو مقدس جنگ کا نام دیا اور کہا جو اس جنگ میں شامل ہو گا اور یروشلم تک پہنچ گا اس کے تمام گناہ معاف کر دے جائے گے کیوں کہ حضرت عیسیٰ دنیا میں واپس تشریف لانے والے ہیں فتح ہمارے ہوگی اور ہمارا دنیا پر راج ہو گا تو جب تک یروشلم مسلمانوں کے قبضے سے آزاد نہیں کروا لیا جاتا تب تک حضرت عیسیٰ نہیں آئے گے ان باتوں نے یورپ کے میں جوش پیدا کر دیا ہر طرح یہی تقریر ہونے لگی تو مختلف ممالک کے بادشاہ اور لوگوں نے یروشلم کی طرف ہجرت شروع کر دی یہ فوج تقریباً 10۔ لاکھ کے قریب تھی ۔ جب یہ 10لاکھ کا لشکر یروشلم پہنچا تو مسلم فوج نے بڑی بہادری سے ان کا مقابلہ کیا 40 روز تک یہ جنگ جاری رہی آخر کار 1096ء میں عیسائیوں کی فوج نے یروشلم فتح کر لیا اور یروشلم داخل ہوگئے ان لوگوں نے یروشلم میں داخل ہو کر وہ ظلم کیا خدا کی پناہ انہوں نے یروشلم کے مسلمانوں کا آتنا خون بہا کے یروشلم کی گلیاں خون سے بھر گئی سیر فتح کرنے کے بعد انہوں نے پوپ کو خبر سنائی کہ ہم نے شہر فتح کر لیا ہے اور شہر کو مسلمانوں سے صاف کر دیا ہے لیکن اس وقت مسلم۔اور خلیفہ اتنے کمزور تھے کہ کچھ نہیں کر سکتے تھے جلد ہی عیسائی فوج نے قریب کے بہت کے علاقے فتح کر لیے لیکن ہر عروج کو زوال ہے
دوسری صلیبی جنگ 1186
1186 میں عیسائیوں کی ایک کمانڈر رجنولڈ نے مدینہ پر حملہ کیا تو سلطان صلاح الدین ایوبی نے ان کا پیچھا کر کے اور حطیم کے مقام پر ایک خوف ناک جنگ لڑی گئی اس میں 20 ہزار عیسائی مارے گئے اور کچھ قیدی بنے اور رجنولڈ گرفتار ہوا اور سلطان نے اس سر قلم کیا اس جنگ کی خبر پوری دنیا میں پھیل گئی عیسائیوں میں صلاح الدین ایوبی کا نام خوف کی علامت بن گیا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے چھوٹے سے لشکر سے اتنے بڑے لشکر کو شکشت دے دی اس کے بعد سلطان نے یروشلم کا رخ اور اک ہفتہ کی جنگ کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیے بیب المقدس پورے 91 سل بعد مسلمانوں کے قبضے میں واپس آیا تھا فتح کے بعد جیسے عیسائیوں نے مسلم قتل عام کیا مسلمانوں نے ایسا کچھ نہیں کیا سلطان صلاح الدین ایوبی نے سختی سے روک دیا تھا لوگوں کی جان مال عزت و آبرو محفوظ رہے اور حکم دیا جو شہر چھوڑ کر جانا چاہتا ہے وہ جا سکتا ہے اس سے اس لوگوں کے دل جیت لیے اس لیئے یورپ کے لوگ اور تاریخ آج بھی ان کی عزت کرتے ہیں لیکن کے عیسائی کو شکست پسند نہ آئی اور انہوں بدلہ لینے کی ٹھانی اور جرمنی اٹلی اور انگلینڈ سے 6 لاکھ فوج آیئ یروشلم آیئ جس کی قیادت انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیر دل کر رہے تھے انہوں نے پہلے فلسطین کے چھوٹے شہروں پر حملہ کیا اور پھر سلطان صلاح الدین ایوبی سے ان مقابلہ ہوا تو سلطان نے ان کو جوان مردی سے جوبدیا لکن کسی طرح مسلم ممالک سے مدد نہ آئے تو سلطان صلاح الدین ایوبی کو پیچھا ہٹانا پڑا اور
یروشلم شہر کو مضبوط کرنا شروع کر دیا
تیسری صلیبی جنگ 1189
یروشلم میں جب عیسائیوں کا مقابلہ ہوا تو بھرپور جنگ ہوئی ایک دفعہ بادشاہ رچرڈ شیر دل کا مقابلہ سلطان صلاح الدین ایوبی سے ہوا تو بھرپور مقابلہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اک ہی وار میں اس کے گھوڑا کو قتل اور رچرڈ شیر دل زمین پر گر پڑا اگر سلطان چاہتا تو اس کو مار سکتا تھا لیکن تو سلطان نے اس کو دوسرا گھوڑا دینے کا کہا کہ مقابلہ برابر کی سطح پر ہو سلطان صلاح الدین ایوبی کی اس فیاض یابی اور رحم دلی کا اتنا اثر ہو کہ رچرڈ شیر دل نے لڑنے سے ہی انکار کر دیا اس چیر نے رچرڈ شیر دل کا دل جیت لیا
جب کوئی راستہ نہ ملا تو عیسائیوں نے صلح کی درخواست کی جو سلطان نے قبول کر لی اک معاہدہ ہوا جس کے مطابق یروشلم کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا اور اور عقا اور اک اور شہر عیسائیوں کو دے دیا گیا اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے ہر مذہب کے لوگوں کو یروشلم میں آنے کی اجازت دی کہ وہ اپنے مطابق عبادت کر سکتے ہیں
غیر مسلم کے قبضے سے آزاد کروایا جس کی وجہ سے ان کو فتح بیت المقدس کہا جاتا ہے ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی زندگی کے آخری سال بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے عیسائیوں سے جنگ و جدل میں گزارے لیکن مختلف معرکوں میں میں عیسائیوں کے ساتھ اتنا عمدہ سلوک کیا کہ مسیحی دنیا آج بھی ان کی عزت کرتی ہے
ان کو حہاد کا اتنا شوق تھا کہ ایک دفعہ ان کے نچلے دھڑ پر زخم ہوگیا جس کی وجہ سے وہ بیٹھا کر کھانا نہیں کھاسکتے تھے لیکن اس حالت میں بھی جہادی سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آئی وہ فجر سے لے کر مغرب تک گھوڑے پر سوار رہتے وہ کہتے تھے جب تک گھوڑے پر سوار رہتا ہو میں ساری تکلیف بھول جاتا ہوں اور جب گھوڑے سے اترتا ہوں تو جب سب تکلیف محسوس ہونے لگتی ہیں
مسیحوں سے صلح ہونے بعد سلطان صلاح الدین نے انہیں بیت المقدس میں زیارت کی اجازت دیے دی اجازت ملنے کے بعد جب یورپ کے عیسائی جو برسوں سے زیارت کے منتظر تھے اس کثرت سے بیت المقدس آۓ کہ یورپ کے بادشاہوں کو انتظامات رکھنا مشکل ہو گیا تو انگلینڈ برطانیہ کے بادشاہ رچرڈ شیر دل نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو پیغام بھیجا کہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کو بیت المقدس میں داخل کی اجازت نا دی جائے سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا زائرین اتنی طویل مسافت اور تکلیف جھل کر آتے ہیں زیارت کے شوق سے آتے ہیں ان کو روکنا غیر مناسب ہے میں ایسا نہیں کر سکتا ہے سلطان صلاح الدین ایوبی نے زیارت کی غرض سے آنے والے لوگوں کو ہر طرح کی آزادی دی اور ان ہزاروں لوگوں کے خاطر مدارت کے لیے خصوصی انتظامات کیے
سلطان صلاح الدین ایوبی کا غیر مسلم سے سلوک عین مسلم تعلیمات کے مطابق تھا اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اک اسلامی ریاست میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم کو مکمل حقوق اور آزادی حاصل ہوتی ہے
سلطان صلاح الدین ایوبی نے ہمیشہ سادہ زندگی گزاری کبھی مہنگا اور ریشمی لباس نہیں پہنا سادہ زندگی گزاری ایک معمولی ے مکان میں رہائش اختیار کی سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنے دور میں رفاعہ عامہ کے کام کروائے مصر کی فتح کے بعد قاہرہ کے محلات میں ہیرے جواہرات ملے ان کو اپنے خزانے میں رکھنے کی بجائے بیت مال میں جمع کروائے محلات کو عام استعمال میں لایا اور ان کو مدراس اور جامع یونیورسٹیاں میں تبدیل کیا طلباء کے قیام و طعام کا انتظام کیا مصر میں کثرت سے سکول اور شفا خانے ہسپتال بناۓ ایک سیاح ابن جبیر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مصر کے ہسپتال محل کی طرح تھے اور ادویات کا خزانہ موجود تھا
سلطان صلاح الدین ایوبی افعانستان کی غوری سلطنت کے حکمران شہاب الدین غوری اور مراکش کے حکم ران یعقوب المنصور کے ہم عصر تھے اور یہ تینوں حکم ران اپنے وقت عظیم ترین حکمران تھے
سلطان صلاح الدین ایوبی 1193میں 57ء برس کی عمر میں انتقال کرگئے ان کو شام کے دارالحکومت دمشق میں مسجد امیہ کے نواحہ میں سپردِ خاک کیا گیا سلطان صلاح الدین ایوبی نے کل 20 سال حکومت کی سلطان صلاح الدین ایوبی کے بارے میں ایک انگریز مورخ لین پول نے کہا تھا کہ صلاح الدین ایوبی اور اس کے ہم عصر بادشاہوں میں ایک عجیب سا فرق ہے بادشاہوں نے اپنے جاہ و جلال کی وجہ سے عزت پائی جبکہ صلاح الدین ایوبی عوام سے محبت اور اور ان کے معاملات میں دلچسپی لے کر ہر دلعزیز پائی سلطان صلاح الدین ایوبی کی سلطنت کو ایوبی سلطنت اس لیے کہا جاتا ہے کیوں کہ ان کے والد کا نام نجم الدین ایوب تھا تو اس وجہ سے اس ایوبی سلطنت کہلاتی ہے سلطان صلاح الدین ایوبی کے بعد ایوبی سلطنت میں چند لائق حکمراں گزرے ہیں جن میں اس بھائی ملک عادل اور اس کا بیٹا ملک کامل شامل قابل ذاکر شامل ہیں جنھوں نے 60 سال تک کسی نا کسی طریقے سلطنت ایوبی کو سنبھالے رکھا لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی جیسا جاہ و جلال قائم نہیں رکھا سکے بعد میں یہ سلطنت کمزور ہوئی اور ترکوں نے اس کو فتح کر لیا اور مملوک سلطنت کی بنیاد رکھی