تحریر: سید قمر عباس قنبر نقوی سرسوی
دہلی میں علمی، ادبی، مذہبی، اور دینی فضا اچانک اُس وقت سوگوار ہوگئی جب انجمن اثنا عشری (رجسٹرڈ) نگراں و متولی امامیہ حال، نئی دہلی کے جنرل سیکریٹری الحاج شاکر حسین انصاری صاحب نے انتہائی صبر و ضبط کے بعد یتیمان کو بتایا کہ آپ کے ابٙا یعنی مولانا ممتاز علی واعظ غازی پوری، امام جمعہ و جماعت امامیہ حال، پنجکوئیاں روڈ اب ہمارے درمیان نہیں رہے ۔ اس خبر سے وطن و خاندان سے دور اِن یتیمان اور بیوہ کی کیا کیفیت ہوگی اس کا اندازہ ہر ذی شعور اور ذمہ دار شخص کو ہے ۔ یہ افسوسناک اور دل دہلانے والی خبر رات کی تاریکی میں ہی اس تیز رفتاری سے پھیلی کہ شہری اور ملکی سرحدوں کو پار کرتے ہوئے دنیائے شیعیت خصوصاً حلقہ علم و ادب کو غمزدہ و سوگوار بنا دیا ۔ مولانا موصوف کی اچانک وفات سے قوم و ملت کا وہ علمی چراغ جسے مرحوم نے برسوں ملک و بیرونِ ملک میں منبر و محراب، درس و تدریس اور قلم و زبان سے خدمتِ دینِ مبین کے زریعے روشن کیا تھا خاموش ہو گیا۔ مرحوم ممتاز و جری عالم دین، مخلص و خوددار استاد، بیباک و منکسر المزاج خطیب اور ماہرِ امور حج تھے آپ کی وفات یقینا ایک بڑا قومی، علمی، دینی اور خسارہ ہے۔
مولانا ممتاز علی واعظ 25 اگست 1957 کو حنفی المسلک سے تعلق رکھنے والے شیخ محمد صدیق مرحوم کے گھر موضع سورم ضلع غازی پور، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ مگر آپ کی تربیت و پرورش شہرِ غازی پور کے مشہور ایڈوکیٹ سید شبر صاحب کی سرپرستی ہوئی جو ایک باوقار اور علمِ شناس شخصیت کے مالک تھے۔ اسی دور میں آپ کو مکتبِ اہلبیتؑ اور شیعیت سے رقبت نصیب ہوئی۔
مولانا مرحوم نے اولاً جامعہ جوادیہ اور جامعہ ایمانیہ بنارس میں ظفر الملت مولانا سید ظفر الحسن رضوی طاب ثراہ، شیمیم الملت مولانا سید شمیم الحسن رضوی مدظلہ، ملا طاہر طاب ثراہ، مولانا سید احمد حسن طاب ثراہ اور مولانا سید محمد حُسینی طاب ثراہ جیسے معتبر اساتزہ سے تعلیم حاصل کی۔ مولانا جامعہ جوادیہ کے ایک ہونہار اور ذہین طالب علم تھے۔ آپ نے ایک تقریر میں فرمایا تھا کہ میری اصل جوادیہ ہے میں سب کو چھوڑ کر یہاں تنہا آیا تھا مگر جوادیہ میں مجھے علمِ اہلبیتؑ کے ساتھ باپ، ماں اور بھائی سب کا پیار اور ساتھ ملا۔ جوادیہ سے آپ مدرسۃ الواعظین لکھنو گئے وہاں قابلِ قدر و فخر استازہ مولانا وسیم محمد طاب ثراہ، مولانا ابن حسن نہروی طاب ثراہ، مولانا ادیب الہندی طاب ثراہ اور مولانا شبیہ الحسن نہروی طاب جیسے بزرگ و یگانہ اساتزہ سے علمِ اہلبیتؑ حاصل کیا۔ اس کے بعد مزید حصولِ علم کے لیے حوزہ علمیہ قم مقدس تشریف لے گئے۔
شہرِ علم قُم مقدسہ سے آپ کو مبلغ دین بنا کر افریقہ بھیجا گیا جہاں آپ نے برسوں خدمت کی، لیکن جب وہاں کے مومنین کی جماعت نے آئمہ مساجد سے خدمتِ دین کے لیے وقت اور کام کے عنوان سے معاہدہ کرانے کا مطالبہ کیا تو مرحوم نے یہ کہتے ہوئے افریقہ چھوڑ دیا کہ امام جماعت پابند نہیں آزاد ہونا چاہیئے ۔ پابند ملازم کے پیھے نماز درست نہیں ہے۔
1993 کے اوئل میں مرحوم دہلی تشریف لا ئے یہاں تا حیات انجمن اثنا عشری کی زیرِ تولیت قائم امامیہ حال، پنجکوئیاں روڈ میں امام جمعہ و جماعت کی خدمت انجام دیتے رہے۔ مرحوم
مقبولِ عالم ادارہ تنظیم المکاتب، لکھئنو کے قومی نائب صدر تھے۔ آپ نے برسوں جامعہ جوادیہ، جامعہ ایمانیہ بنارس اور مدرسہ اہلبیتؑ جامعہ نگر نئی دہلی میں درس و تدریس کے عنوان سے خدمات انجام دیں ہیں۔ آپ شاگردان کی ایک طویل فہرست ہے جو ملک و بیرون ملک میں مختلف عنوانات سے خدمتِ دینِ مبین انجام دے رہے ہیں جن میں چند اسما مولانا محمد حسن قمی سرسوی، امام جمعہ مسجد امام رضاؑ، جیتپور، نئی دہلی۔ مولانا مرزا عسکری حسین کلکتوی، امام جمعہ کویت، مولانا محمد عادل باقری جوراسی لکھئنو، مولانا سید ندیم حیدر نقوی سرسوی/ قُم، مولانا عابد رضا نوشاد گوپالپوری، مولانا سید میثم عباس زیدی مشہدی سرسوی اور مولانا سید سلمان رضا نقوی علیگڑھ/ قُم ہیں۔
مولانا ممتاز علی واعظ معتبر شاعر اور مستند ادیب تھے ۔ مرحوم دو ماہی توحید اور سہ ماہی پیغامِ ثقلین نئی دہلی کے اداراتی بورڈ اور عالمی ادارہ تحقیق انٹر نیشنل نور مائکرو فلم سینٹر، ایران کلچرل ہاوس سے بھی وابستہ رہے۔ مرحوم عالم دین کا مجالسِ عزا میں اسلامی تاریخ، عقائد اور عظمتِ اہلبیتؑ کو بیان کرنے کا انداز منفرد، پُر کش اور نہایت دلچسپ تھا خطباتِ جمعہ میں ایک منفرد اور جُرات مندانہ طرز میں نصحیتں اور ہدایتیں فرماتے۔
اس عرصہ میں اسلامک ٹور، لکھئنو کے بانی و پروپرائٹر مولانا سید منتظر جعفری قبلہ کی پیش کش پر 15 مرتبہ معلم کاروانِ حج بنکر مکہ، مدینہ اور مشاعر مقدسہ میں حجاج کی خدمت و راہنمائی کی۔
مولانا ممتاز علی واعظ طاب ثراہ نے وطن اور خاندان سے دور دہلی کو ہی اپنا مرکزِ علم و قلم اور تعلیم و تعلم بنا لیا تھا۔ آپ اولادِ نرینہ کی نعمت سے خالی تھے لیکن دنیا نے نظامِ پروردگار دیکھا کہ آپ کی بلندگی اخلاق اور مخلصانہ خدمتِ دین کے نتیجہ میں مرحوم کا جنازہ ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں بیٹے اپنے کاندھوں پر اُٹھائے ہوئے تھے۔ ہائے افسوس دینِ اسلام کا یہ مخلص خادم 5 نومبر 2024 کو داعیِ اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے ربِّ حقیقی سے جا ملا۔ نماز جنازہ شمیم الملت مولانا سید شمیم الحسن رضوی۔ جامعہ جوادیہ بنارس کی اقتدا میں ادا کی گئی۔ اس موقع پر حضرت رہبرِ معظم ولی فقیہ کے نمائندے مولانا مہدی مہدوی پور، قومی رہنماء اور سابق مرکزی وزیر، حکومتِ ہند سید مختار عباس نقوی، المصطفیٰ انٹر نیشنل یونیورسٹی، ایران کے نمائندے ساتھ کثیر تعداد میں علماء، خطبا، شعراء، دانشوران اور مومنین موجود تھے۔ اس موقع پر انجمن دستہ عباسیہ (رجسٹرڈ) دہلی کے نوحہ خواں سید مہدی زیدی ببلو نے انتہائی درد ناک طرز میں الوداعی نوحہ پیش کیا۔
خدائے غفور و رحيم بحق حضرات معصومین علیہم السلام مرحوم عالم دین کی مغفرت فرمائے، درجات میں بلندگی اور پسماندگاندن خصوصاّ بیوہ اور یتیمان کو صبر اجر عطا کرے ۔ آمین یا رب العالمین