حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا اشاعت اسلام میں کردار
توصیف احمدوانی
ڈائریکٹر سید حسن منطقی اکیڈمی اونتی پورہ پلوامہ کشمیر انڈیا
اپ کا لقب (محی الدین) لوگوں نے نہیں بلکہ خود حقیقت اسلام نے اپ کو عطا فرمایا۔ حضرت شیخ سعید عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ علیہ ایک مرتبہ اپنے مشہور خلائق لقب (محی الدین) کے متعلق یہ وضاحت فرمائی کہ میں ایک دن جمعہ کے روز میں سفر سے بغداد کی طرف واپس ا رہا تھا کہ ایک نہایت ہی لاغر نحیف پر میرا گزر ہوا۔ اس نے کہا، السلام علیکم یا عبدالقادر،، میں نے سلام کا جواب دیا ۔کہنے لگا مجھے اٹھاؤ۔ میں نے اٹھا کر بٹھا دیا تو اس کا چہرہ با رونق اور جسم موٹا تازہ ہو گیا۔
میں حیران ہوا تو کہنے لگا تعجب کی بات نہیں، میں اپ کے جد پاک حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہوں جو مردہ ہو رہا تھا، اللہ تعالی نے اپ کے ذریعے مجھے نئی زندگی عطا فرمائی،
اپ محی الدین ہیں۔
حضرت شیخ سعید عبدالقادر جیلانی ولی کامل اور سادات حسینیہ میں بڑی عظمت کے مالک ہے۔
بلکہ اپ کا نسب مبارک چاروں خلفائے راشدین سے ملتا ہے اپ کے نسب کے سلسلے میں علامہ یونس الشیخ ابراہیم مستند کتب سیرت کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا نسب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے یوں ملتا ہے کہ حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجدہ کی والدہ جن کا نام ام سلمہ ہے وہ امام محمد بن امام طلحہ بن عبداللہ بن امام عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی صاحبزادی ہیں۔
حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ علیہ سے لوگوں نے پوچھا کہ اپ نے کب معلوم کیا کہ( اپ ولی اللہ) ہیں،
اپ نے فرمایا کہ میں اپنے شہر میں 12 برس کا تھا اور پڑھنے کے لیے مکتب جایا کرتا تھا تو میں اپنے ارد گرد فرشتوں کو چلتے دیکھتا تھا اور جب میں مکتب میں پہنچتا تھا انہیں کہتے سنتا کہ ولی اللہ کو بیٹھنے دو ۔
ایک روز میرے پاس ایک شخص گزرا جس سے میں مطلق نہیں جانتا تھا اس نے فرشتوں کو جب یہ کہتے سنا کہ وہ کشادہ ہو جاو اور ولی اللہ کے لیے بیٹھنے کے لیے جگہ کر دو تو اس شخص نے فرشتوں سے پوچھا یہ کس کا لڑکا ہے، ایک فرشتہ نے ان سے کہا کہ یہ ایک شریف سید گھرانے کا لڑکا ہے ۔
اس شخص نے کہا کہ یہ عظیم الشان شخص ہوگا پھر 40 سال کے بعد میں نے شخص کو پہچانا کہ ابدال وقت میں سے تھے۔
18 سال کی عمر میں شیخ تحصیل علم کے لیے بغداد تشریف لائے، جو اس وقت مدینۃ العلوم ہونے کے ساتھ اس دور کے علماء کرام اور عالم اسلام کے علماۓ عظام کا مرکز تھا۔ یہی وہ سال ہے جس سال امام غزالی رحمت اللہ علیہ نے تلاش حق وحصول یقین کے لیے بغداد کو خیرباد کہاں تھا۔
حضرت شیخ سعید عبدالقادر جیلانی نے اس وقت کے علمائے عظام ،ائمہ، بزرگان دین، اور محدثین کی خدمت کا قصد فرمایا۔
پہلے قران مجید کو روایت ودر روایت اور تجوید وقرات کے اسرار رموز کے ساتھ حاصل کیا۔
اس زمانے کے بڑے بڑے محدثین اور اہل فضل و کمال مستند علماء کرام سے حدیث کی سماع فرما کر علوم کی تکمیل فرمائی۔
حتی کہ تمام اصولی فروعی اور اختلافی علوم میں علماء بغداد ہی سے نہیں بلکہ تمام ممالک اسلامیہ کے علماء سے سبقت لے گئے اور اپ کو تمام علماء دین پر فوقیت حاصل ہو گئی اور سب نے اپ کو اپنا امام اور رہبر تسلیم کیا۔
اپ کے اساتذہ میں سے ممتاز شخصیت کی اسم گرامی ہیں۔ ابو زکریا رحمت اللہ علیہ یحیی بن علی بن الخطیب التبریزی، جو نحو، لغت ،اور ادب کے امام تھے۔
نظامیہ بغداد میں شعبہ ادب کی تدریس اور کتب خانے کی نگرانی ان کے سپرد کی گئی تھی، دین اور ادب میں کہی تالیفات ان کی یادگار ہیں۔
التبریزی سے شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے عربی زبان اور ادب کی تکمیل کی، جس کے نتیجے میں شیخ رحمت اللہ علیہ میں عربی زبان پر قدرت اور فصاحت و بلاغت کے نہایت اونچے معیار کے ساتھ شعراء اور خطابت کا جوہر پیدا ہوا۔
حضرت شیخ سعید عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ بے نظیر محدث ،
مفسر ، فقیہ المثال فقیہ تھے ۔
عمر البزار بیان کرتے ہیں کہ عراق کے سوا دیگر بلاد سے بھی اپ کے پاس فتوی ایا کرتے تھے۔
جب اپ کے پاس کوئی فتوی اتا تو اپ کو اس میں غور و فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی۔
کسی فتوی کو اپ اپنے پاس نہیں رکھتے تھے بلکہ اسے پڑھ کر اسی وقت اس کے ذیل میں اس کا جواب تحریر فرما دیتے تھے اپ کے فتوے علمائے عراق پر بھی پیش ہوتے تھے تو ان کو اپ کے سرعت جواب پر نہایت ہی تعجب ہوتا جو کوئی بھی اپ کے پاس علوم دینیہ میں سے کوئی بھی ساتھی علم حاصل کرنے اتا تو وہ اپ کے علم میں اپ کا ہمیشہ محتاج اور دوسروں پر فائق رہتا۔
اپ کی مجالس میں اس کثرت سے لوگ انے لگے کہ مدرسہ کی جگہ ان کے لیے کافی نہیں ہوتی لوگ باہر فیصل کے پاس سڑک پر بیٹھ جاتے اور ہر روز ان کی امد سے پہلے ہی لوگ زیادہ ہوتی جاتی تو قریب و جواز کے مکانات شامل کر کے مدرسے کو وسیع کر دیا گیا۔
اپ جمعہ کی صبح کو اپنے وعظ فرماتے، منگل کی شام خانقاہ میں اور اتوار کے دن علماء و فقہاء کے مجمع میں واعظ ہوتا سامعین کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے اپ کو شہر کی ابادی سے باہر نکلنا پڑتا اور ایک وسیع و عریض میدان میں اس اجتماع کے لیے منتخب کیا گیا۔
تاثیر وعظ کا یہ عالم تھا کہ کوئی مجلس وعظ ایسی نہیں ہوتی، جسے ذوق و شوق، تصرف ، اور عظمت و جلال کے باعث کہی جنازے اٹھتے اور سامعین کی کثیر تعداد کہی کہی دن تک مدہوش رہتی۔
دوران وعظ خشت الہی سے گریہ زاری اور آہ و فغاں کی ایک محشر برپا رہتا ، ہزاروں گریبان چاک ہوتے اور سینکڑوں نیم بسمل مجلس سے تڑپتے اٹھتے اٹھائے جاتے۔
حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ علیہ کے مواعظ، دلوں پر بجلی کی طرح اثر کرتے تھے اور وہ تاثیر اج بھی اپ کے کلام میں موجود ہے، فتح الغیب اور الفتح الربانی کے مضامین اور اپ کی مجلس وعظ کے الفاظ اج بھی دلوں کو گرماتے ہیں، ایک طویل مدت گزر جانے کے بعد بھی ان میں زندگی اور تازگی محسوس ہوتی ہے۔
اپ کے کلام میں بیک وقت شوکت و عظمت بھی ہے اور دل او یزی اور حلاوت بھی، اور صدیقین کے کلام کی یہی پہچان ہے۔
حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ علیہ نے نے بعیت اور خانقاہی تربیت کے طریقوں کو بھی مرکز توجہ بنایا، بیعت کا طریق ،اہل ارشاد میں پہلے سے ہی مروج تھا لیکن شیخ عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ علیہ نے اسے وسعت اور تازگی تازگی بی دی اور نظم و ضبط بھی بخشا۔ حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں ان کا جاری کردہ طریقہ قادریہ لاکھوں نفوس کو فیضیاب کر چکا تھا۔
حضرت پیر پیران رحمت اللہ علیہ کے وصال کے بعد اپ کے خلفاء اور قادری خانقاہوں کا سلسلہ نہ صرف عالم اسلام میں اصلاح و ارشاد کی ایک وسیع تحریک کی صورت اختیار کر گیا بلکہ غیر مسلموں میں بھی اشاعت اسلام کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ثابت ہوا۔ اج جب کہ ہمارا معاشرہ پھر زبوں حالی کا شکار ہے۔
اسلامی قدریں اپنا تشخص کھو رہی ہے دین سے دوری اور مادیت پسندی جیسے مسائل ہمارے لیے سوہان روح بنتے جا رہے ہیں ان سب کا حقیقی اور پائیدارحل صرف اور صرف حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ علیہ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے ہی ممکن ہے۔
اور اج بھی روبہ زوال اخلاقی اور اسلامی اقدار کی حیات نو اور اسلام کی نشاط ثانیہ کے حصول کے لیے اپ کی سچی اور پاکیزہ زندگی کو اپنے لیے مشعل راہ بنانا ہوگا ۔
کیونکہ حضرت عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ کی تعلیمات ارشادات اج کے اس پر آشوب اور گئے گزرے دور میں مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور اج بھی زندگی کے ہر موڑ میں ایک شفیق و مہربان اور سچے رہبر کی طرح ہماری رہنمائی فرماتے ہے۔
معاشرے کی تعمیر و ترقی اور صحت مند اور پاکیزہ معاشرے کا حصول بزرگان دین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوئے بغیر ناممکن ہے۔
زندگی کا کوئی گوشہ، کوئی پہلو ہو حضرت کے ارشاد اور تعلیمات ہمارے لیے رہبر کا کام کرتے ہیں ۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ علیہ نے پوری ہمت، و طاقت، اور اخلاص کے ساتھ وعظ و ارشاد، دعوت و تربیت، اصلاح نفوس اور تزکیہ قلوب کی طرح متوجہ کیا ہے اپ کی تعلیمات کی وجہ سے روبہ زوال اسلام میں نئی قوت وہ حرکت اور مسلمانوں میں نیا ایمان اور نئی زندگی پیدا ہوئی، آپ رحمت اللہ کی تعلیمات نے انسانی فکر و نظر کو تطہیر بخشی،
آپ رحمت اللہ علیہ نے حسن عمل کا ایسا اعلی نمونہ پیش کیا جس کی روشنی میں مسلمان اج بھی اپنے کردار عمل کی اصلاح کر کے اسلام کی نشاط ثانیہ کا سامان پیدا کر سکتے ہیں۔