WhatsApp Image 2023-01-09 at 8.33.26 PM

حسرت پہ اس مسافر بے کس کی روئیے

حسرت پہ اس مسافر بے کس کی روئیے
جو تھک گیا ہو بیٹھ کے منزل کے سامنے

انسان کو آبِ جاری کی طرح ہونا چاہۓ

اگر انسان زندہ رہنا چاہتا ہے تو اس کے لۓ ضروری ہے کہ آب جاری کی طرح جاری رہے
جس طرح آب جاری اپنے آپ کو سخت پتھروں اور سخت مرحلوں سے گزر کر، اپنے آپ کو کانٹوں سے مس کرتا ہوا آگے اپنی منزل کی طرف بڑتا رہتا ہے بلکل انسان کو بھی اسی پانی کی مانند سخت مراحلوں سے نکلتے ہوۓ، زمانے کی مصیبتیں، دنیا کی سختیوں کو برداشت کرتے ہوۓ، زمانے کے criticism کو سہتے ہوۓ اپنی منزل کی طرف آگے بڑتے رہنا چاہۓ ، اپنے حدف کو پورا کرنے میں انسان کو مشکلات اور آزمائشوں کے ڈر سے اپنا راستہ نہیں بدلنا ہے بلکہ اپنے حدف کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں سے ہارنے کے بجاۓ، اس راہ سے U-Turn لینے کے بجاۓ انسان کو اس راہ میں آنے والی دیواروں کو ہٹاتے ہوۓ اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہنا ہے اور دوسروں کے لۓ بھی کامیابی کی راہ کو ہموار کرنا چاہۓ
خدا کے قریب ہونا اتنا آسان نہیں ہے اس کے لۓ ہمیں بہت سی آزمائشوں کا سامنہ کرنا ضروری ہے ، بہت سے مشکلات کا سامنہ کرنا ضروری ہے، مصیبتوں کو برداشت کرنا ضروری ہے۔
ہمارے آئمہ اطہار ع نے دین کی راہ میں بہت سی مصیبتیں برداشت کی ہیں اور ظلمت کے دور سے اس دین کو نکال کر ہمارے حوالے کیا ہے لیکن ہم نے اس دین کو Entertainment کی طرح لیا ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ جس دین کے لۓ قربانیاں دی گئ ہیں ،شہادتیں دی گئ، سختیاں برداشت کی گئ اس دین کو ہمEntertainment کے طور پر لیں.
ہمیں اس دین کے لۓ اپنے آئمہ کی طرح قربانیاں دینی ہیں، ہمیں اس دین کے لۓ، خدا کی رضا حاصل کرنے کے لۓ سختیاں برداشت کرنی ہے۔

امام رضاع کے دور میں اتنی سختیاں امت کو پیش آئ کہ جو با حجاب عورتیں اْس دور میں تھی انہیں جب نماز پڑنی ہوتی تھی چونکہ نماز کے لۓ لباس صاف اور پاک ہونا شرائط میں آتا ہے ان کے پاس پہننے کے لۓ ایک ہی چادر ہوتی تھی اور کام کرنے کی وجہ سے وہ اتنی صاف نہیں رہتی پھر وہی چادر نماز کے دوران دوسری طرف یعنی الٹا کر کے پہنا کرتی تھی اور نماز اس طرح سے وہ ادا کرتی تھی۔

عزیزان ہم نے تو اپنے دور میں اس طرح کی سختی نہ دیکھی ہے نہ ہی دیکھنی پڑے گی کیونکہ آج کے دور میں ہمیں دوسرے قسم کی سختیاں برداشت کرنی ہے دین کی خاطر۔

ہم فکر کریں کہیں ہم دین کو Enjoy تو نہیں کر رہیں ہیں کہیں ہمیں یہ تو نہیں لگ رہا ہے کہ یہ دین مفت میں ہم تک پہنچا ہے۔

جس دین نے سختیاں دیکھی اور سختیوں کے دور سے گزر کر ہم تک پہونچایا گیا اس دین کے لۓ آج بھی سختیاں اور قربانیاں دینی کی ضرورت ہے امام زمانہ عج کے ظہور کے لۓ ہمیں دنیا میں مصیبتوں اور سختیوں سے لڑنا ہے۔

آج سختیاں کس طرح سے اٹھانی ہے آج ہم اپنی اولاد کو اپنے وقت کے امام عج کے لۓ تیار کرنے میں سختیاں اٹھائیں، آج ہم اپنے وقت کے امام عج کی خاطر اپنا ہر کوئ عمل انجام دیں ، نکاح میں جلدی کریں اس نیت سے نکاح میں جلدی کریں کہ مجھے اپنے وقت کے امام عج کو ایک بہترین سپاہی تیار کر کے دینا ہے۔

ضروری ہے کہ انسان زندگی میں سردی اور گرمی دونوں کو برداشت کرے تاکہ پھر یہ انسان اُس بارش کی طرح زمین پر برسے جو بنجر زمین کو زرخیز کرتی ہے اور اسے فصل اگانے کی قوت بخشتی ہے۔

اگر انسان سختیوں کو برداشت نہ کرے تو انسان آب مضاف کی مانند ہو جاۓ گا جو بس ایک ہی جگہ قیام کی حالت میں رہتا ہے جو پھر کیڑے ، مکوڑوں، گندگی ، بدبو غرض ہر طرح کی نجاست کا ذخیرہ بن جاتا ہے، اگر چہ اس پانی پر کتنی بھی پانی بارش کی صورت میں برستا رہے مگر یہ پانی پھر بھی پاک نہیں کہلا سکتا اور نہ ہی استعمال کے قابل ہوتا ہے کیونکہ اس پانی نے اپنی حرکت بند کی ہوتی ہے اور وہ اپنے اس قیام کی حالت سے خود کو باہر نکالے کی قوت کھو چکا ہوتا ہے اور یہ پانی اسی وجہ سے کسی فائدہ کا نہیں رہتا ہے۔
اس پانے سے نجاست کی بدبو پیدا ہوتی ہے اور انسان اگر ایسے پانی کے نزدیک سے گزرتا ہے تو پہلے اپنا منہ بند کرتا ہے ۔
جو لوگ دنیا میں سختیوں سے ہار کر،سختیوں کو منفی سمجھ کر حرکت کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں اور حرکت کرنے کے بجاۓ اس رکے ہوۓ پانی کی طرح قیام کی حالت کو اپنا کر ایک ہی جگہ رک جاتے ہیں تو وہ انسان نہ اپنے لۓ کچھ کرپاتا ہے اور نہ ہی دوسروں کے لۓ اور نہ ہی دین کی خاطر کچھ کرپاتا ہے بلکہ ایسا انسان دین اور دنیا دونوں کے لۓ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

عزیزان دنیا میں اگر کامیاب ہونا ہے اگر دنیا میں سکون کی زندگی بسر کرنی ہے تو ہمیں ہمیشہ سختیاں اور مشکلات کے سامنہ کرتے ہوۓ اپنی منزل کی طرف آگے بڑھتے رہنا ہے۔

از قلمِ
حیدری فدا حسین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں