Download (8) 30

بنیادی سہولیت کی عدم دستیابی نے وادی کے طول ارض میں سنگین رُخ اختیار کرکے لوگوں کے مشکلات میں اضافہ کیا

بنیادی سہولیت کی عدم دستیابی نے وادی کے طول ارض میں سنگین رُخ اختیار کرکے لوگوں کے مشکلات میں اضافہ کیا
انتظامیہ کی جانب سے کئے جانے والے اعلانات دفتروں تک محدود زمینی صورتحال انتہائی مخدوش /عوامی حلقے

سرینگر// وادی کے طول ارض میں بنیادی سہولیت کی عدم دستیابی کے باعث لوگوںمیں تشویش بجلی کی عدم دستیابی پینے کے پانی کی قلت سڑکوں کی خستہ حالت طبعی سہولیت کا فقدان اب وادی کے لوگوں کامقدر بن چکاہے ۔سرکاری زررائع کی جانب سے جوبھی اعداد شمار بجلی کی فراہمی پینے کے پانی طبعی سہولیت فراہم کرنے یا سڑکوں کی مرمت میگڈم بچھانے کے لئے اسے فراہم کئے جاتے ہے وہ زمینی سطح پرکہی بھی میل نہیں کھاتے ہے اور عوامی حلقوں کامانناہے کہ راج بھون اور سیول سیکریٹریٹ سے جاری کئے جانے والے اعلانات پر باہرکہی بھی عمل درآمد نہیں ہوپا رہاہے ۔بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی نے وادی کے طول ارض میںسنگین رُخ اختیار کیاہے اور لوگوں کا کہناہے مشکلات میںکمی ہونے کے برعکس ان میںہر دن اضافہ ہوتا جارہاہے اور یہ اضافہ اس قدربڑھ گیاہے کہ عوام کے برداشت سے باہرہوگیاہے پینے کے پانی کی قلت کاشکایت کرے تو جواب آتا ہے کہ واٹرسپلائی اسکیموں کی مرمت ہوچکی ہے آ نے والے دنوں کے دوران لوگوں کوپانی کی قلت کاسامنا نہیں کرنا پریگا ۔تاہم پینے کاپانی فراہم ہونے کے بجائے پائیپیں خشک ہوجاتی ہے۔ عوامی حلقوں کے مطابق ہرسال ہر ماہ ہردن لوگ شکایت کرتے ہیں کہ انہیں بہترطبعی سہولیات سرکاری اسپتالوں میںفراہم نہیں کی جاتی ہے ۔ڈاکٹریاتوپرائیویٹ پریکٹس کرنے میں لگے ہیں یاپھر وہ اپنے ائرکنڈشن کمروں سے باہر نکلنے کے لئے تیار نہیںاور دوردراز علاقوں میں ڈاکٹرہفتے میں ایک بار ضرور جاتے ہیں ارئیول پردستخط کرکے اپنی حاضری کایقین دلاتے ہیں اور ان دور دراز علاقوں میں نیم طبعی عملہ یادرجہ چہارم کے ملازم حاضر توہوتے ہیں اور بیماروں کوعلاج بھی کرنے کافریضہ انجام دیتے ہے ۔ڈاکٹروںکی پرائیویٹ پریکٹس پرمسلسل جاری ہے او رسرکار کویہ بات یقینی بنانی چاہئے تھا کہ جوبھی سرکاری اسپتال میں ڈاکٹرتعینات ہیں ان پرمکمل پرائیویٹ پریکٹس پرپابندی ہے کسی بھی پرائیویٹ کلنک یااسپتال میں اپنی خدمات انجام نہیںدے سکتااگردیگا تواس سے پہلے نوکری سے استفیٰ دیناچاہئے ۔عوام کے ٹیکس سے ملازمین کی تنخواہیں اداکی جاتی ہے او راگر عوام ہی مشکلات سے دو چار ہوتو اداروں کامعنیٰ کیاہے کیاادارے اس لئے قائم کئے ہے کہ اس اہم افسروںکی تابع داری کرے اور ان کے نازنکھروں سے کمائی کاٹیکس ادا کرے تاکہ وہ موج مستی کی زندگی گزار سکے اگرعوام کو پینے کے پانی کی قلت ہے طبعی سہولیات کے فقدان کاسامناکرنا پڑتاہے سڑکوں کی خستہ حالت بجلی کی فراہمی اسکولوںمیںبچوںکو بیٹھنے کی گنجائش نہیںامداد باہمی کے محکمہ سے معذوروں عمررسیدہ افراد یابیماروں کووقت پرامداد کی رقم ان کے بینک کھاتوں میں جمع نہ ہوتو ان اداروںکے معنی کیاہے ۔عوامی حلقوں کے مطابق جموںو کشمیرکے ایل جی نے کئی بار اعلیٰ سطحی میٹنگوں کے دوران افسروں پرزور دیاکہ وہ عوام کاکام کرے حکومت کواپنی کارکردگی سے آگاہ کرے۔ عوامی حلقوںکے مطابق سرکار کوفراہم کئے جانے والے تمام اعداد شمار حقیقت سے میل نہیں کھاتے گوناں گوں عوام مشکلات سے دو چار ہیں اور آئے دن مشکلات میں کمی ہونے کے بجائے ان میںاضافہ ہوتا ہے۔ فروری کے مہینے میں سرکار نے تمام اداروں کو فراہم کیاہے کہ وہ عوام کی فلاح وبہبود کے لئے ہراقدامات اٹھائیں اور کسی بھی طرح کادقیقہ فروگزاشت ناکرے تاہم صورتحال بد سے بدترہوتی جارہی ہے ۔عوام مصائب مشکلات سے دو چار ہیں ۔سدہار کی جواُمیدیں لوگ قائم کئے ہوئے ہیں وہ مسلسل طوالت کی نظر ہورہی ہے جسکے نتیجے میں انہیں دشواریوں سے گزرنا پڑ رہاہے 21وی صدی میں لوگ بجلی کی عدم دستیابی ،پینے کے پانی کی قلت ، سڑکوں کی خستہ حالت، طعی سہولیت کے فقدان اسکولوں کی حالت ابتر سرکاری امداد نہ ملنے اور شروع کی گئی اسکیموں کے زریعے لوگوں کومستفید ہونے کاروناناپڑے ا سے بڑا المیہ اور کیاہوسکتاہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں