بشر کی سر بلندی میں بھی کوئی راز ہوتا ہے.
جو سر دے دے سر میدان وہی سر فراز ہوتا ہے
امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں۔۔۔
لوگوں کے درمیان ایسے زندگی بسر کرو کہ جب موت آئے تو وہ تمہاری جدائی پر افسردہ ہوں اور اگر زندہ رہو تو وہ تمہاری مصاحبت کو ترسیں۔
جنرل قاسم سلیمانی کا تعلق صرف ایران سے ہی نہیں بلکہ وہ عالم اسلام کے اہم فرزند تھے۔ عالم کفر کچھ عرصہ قبل ہمارے اس خطے کو غیر مستحکم کرنا چاہتا تھا لیکن قاسم سلیمانی اس کے ناپاک عزاہم کو ناکام بنا دیا، دشمن کامیاب ہوجاتا تو ہم تیسری عالمی جنگ کی طرف جا سکتے تھے۔ داعش کے منصوبوں کو ناکام بنانے کیلئے قاسم سلیمانی جس دلیری سے مقابلہ کیا۔ اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد کفر کیخلاف جدوجہد ختم نہیں ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے۔
خطے کے بحران کے حل میں شہید سردار کے بے بدل کردار نے نہ
صرف القدس فورس اور انہیں خطے اور عالمی سطح پر ایک اہم عامل کے طور پر ثبت کیا بلکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے مقام کو پوری دنیا میں بلند کیا۔ اس بات کی غربی، عربی اور صیہونی مبصرین کئی مرتبہ تائید کر چکے ہیں۔
نیویارک ٹائمز نے ستمبر ۲۰۱۳ء کو انہیں ’’قابل نفرت اور قابل تحسین دشمن‘‘ کا نام دیا۔ عراق میں سی۔آئی۔اے کا سابق سربراہ جان مگوئیر کہتا ہے: ’’وہ مشرق وسطیٰ میں سب سے طاقتور خفیہ ایجنٹ ہے۔۔۔ اور اسے کوئی بھی نہیں جانتا‘‘۔
امریکی ہفتہ نامہ نیوز ویک اپنے بین الاقوامی اخبار میں ۳ دسمبر ۲۰۱۴ء کو قاسم سلیمانی کی تصویر اپنے سرورق پر شائع کرتا ہے اور ان کی تصویر کے ساتھ لکھتا ہے: پہلے امریکہ کے ساتھ لڑتا رہا، ابھی
کو کچل رہا ہے، وہ ایک ذہین شخصیت کا حامل اور جنگ کا عاشق ہے اور خود بھی جانتا ہے کہ اس کام کا ماحصل(مغز) ہے۔
امریکی اخبار فارن پالیسی مختلف شعبوں میں عالمی سطح کے نمایاں مفکرین کی دسویں سالانہ رپورٹ میں قاسم سلیمانی کو سیکیورٹی و دفاعی میدان کے ۱۰۰ نمایاں چہروں میں سے ایک قرار دیتا ہے۔
اس اخبار کی رپورٹ میں اشارہ کیا گیا کہ یمن سے عراق اور شام تک جن مقامات پر بھی ایران کام کر رہا ہے؛ وہاں سلیمانی کے فنگر پرنٹس موجود ہیں۔ فارن پالیسی نے اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کو قاسم سلیمانی کے انتباہ کہ: (ہم تمہارے نزدیک ہیں، اتنا کہ تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے) کا بھی ذکر کیا ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل نے ڈیوڈ پیٹریاس سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ بہت قابل، مدبر اور شائستہ دشمن ہے۔
اسی طرح اسرائیل کی اسپیشل انٹیلی جنس ایجنسی ایک رپورٹ میں علاقائی بحرانوں سے نمٹنے کے حوالے سے قدس فورس اور سردار سلیمانی کے کردار کے بارے میں کہتی ہے: قاسم سلیمانی کا علاقائی صورتحال پر نقطہ نظر ایرانی حکومت کے اصولوں کی بنیاد پر ہے کہ مغرب اور بالخصوص امریکہ کو دنیا میں شیطان کا مرکز سمجھتا ہے اور اسے اپنی قومی سلامتی اور امن و امان کے خلاف سنگین خطرہ قرار دیتا ہے۔ یوں امریکہ و اسرائیل کی دشمنی ایران کے فکری عقائد کا محور ہے اور سلیمانی کا خیال ہے کہ ایران امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہر اول دستہ اور سب سے آگے ہے، اس کے نتیجے میں ضروری ہے کہ القدس فورس اور خطے میں اس کے اتحادی مشرق وسطیٰ اور ایران پر امریکہ کے تسلط کی کوششوں کو ناکام کریں۔۔۔ حالیہ برسوں میں قاسم سلیمانی ایران کے اندر ایک طاقتور چہرہ بن چکا ہے اور ’’قومی ہیرو‘‘ کے عنوان سے اس کی تصاویر حال و مستقبل میں اس کے موقف کی تقویت کی موجب ہوں گی۔۔
علاقائی صورتحال میں القدس فورس کی تقویت کا سبب اس فورس کی بحرانوں میں براہ راست شرکت ہے۔ مثال کے طور پر رائٹرز نیوز ایجنسی نے عراق کے اندر
کے بحران کا سامنا کرنے کے حوالے سے سردار سلیمانی کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: سلیمانی نے داعش کے حملے سے پیدا ہونے والے بحران میں پہلے بغداد کا سفر کیا تاکہ عراقی فوج کے عہدیداروں سے دارالحکومت کے دفاع کے حوالے سے اتفاق رائے حاصل کرے اور پھر اس نے ایران سے تربیت حاصل کرنے والے شیعہ مجاہدین کی قیادت اور رہنمائی کی۔
جرمنی کا ہفت روزہ جریدہ سپیگل بھی سلیمانی اور خطے کی مشکل صورتحال بالخصوص امریکہ کے خلاف سردار سلیمانی کے کردار پر لکھتا ہے: قاسم سلیمانی ایک نمایاں جرنیل ہے جو امریکہ کے تمام عزائم کو خاک میں ملا دیتا ہے۔ قاسم سلیمانی ایک جرات مند، صابر، بردبار، بے خوف، بلند پرواز، زیرک اور بہت کرشمائی شخصیت کے عنوان سے پہچانا جاتا ہے۔..۔
یہ ہفت روزہ سردار سلیمانی کی میدان جنگ میں موجودگی کے بارے میں لکھتا ہے: سردار قاسم سلیمانی ایسا شخص نہیں ہے کہ جب اپنی فوج کو جنگ کیلئے بھیجے تو خود گھر میں بیٹھ جائے۔ یہ کمانڈر بڑی آسانی کے ساتھ محاذ جنگ سے پیچھے بیٹھ سکتا ہے مگر ترجیح دیتا ہے کہ خود کو محاذ جنگ پر حاضر کرے۔۔
آخرکار باطل کے خلاف حق کے محاذوں پر برسرپیکار انتھک کمانڈر سردار حاج قاسم سلیمانی جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب رات ایک بجے بمطابق ۳ جنوری ۲۰۲۰ء کو اپنے مجاہد دوست حشد الشعبی کے کمانڈر
اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ بغداد ائیرپورٹ سے اپنی گاڑیوں میں شہر کے مرکز کی طرف روانگی کے دوران امریکی ہیلی کاپٹروں کے میزائل حملوں کی زد میں آ کر شہادت کا جام شیرین نوش کر گئے اور اپنے دیرینہ شہید دوستوں کے ساتھ ملحق ہو گئے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر معظم نے ایک پیغام میں انہیں مقاومت(آزادی خواہ مزاحمتی تحریکوں) کا بین الاقوامی چہرہ کہا اور ان کی شہادت کی مناسبت سے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا۔
قاسم سلیمانی اور ابو المہدی المھندس کی شہادت کے بعد عراق کی سیاسی جماعتوں اور عوام الناس نے امریکی فورسز کے ملک سے نکل جانے کا مطالبہ کیا جبکہ عراقی پارلیمنٹ نے ۵ جنوری ۲۰۲۰ء کو ایک ہنگامی اجلاس طلب کر کے عراق سے امریکی افواج کے نکلنے کا بل منظور کر لیا۔
قاسم سلیمانی کی وصیت نامہ میں سے ایک حصہ اپ کی نظر جس سے یہ واضع ہوتا ہے کہ شہید کو اپنے شہادت کی کتنی فکر تھی، اور ان کے پیغام سے واضع پیغام ملتا ہے کہ ہمیں اپنے اور اپنے سماج و قوم کے لئے کتنا فکرمند ہونا چاہیۓ۔
شہید کی وصیت نامہ کا ایک حصہ
اے خدا میں اپنے دوستوں کے قافلہ سے پیچھے رہ گیا ہوں
اے خدائے توانا۔ عرصہ ہوا کہ میں اس کاروان سے پیچھے رہ گیا ہوں جس کی طرف مسلسل دوسروں کو روانہ کر رہا ہوں۔ لیکن تو اس سے بخوبی آگاہ ہے کہ میں نے ان دوستوں کے ناموں کو ہمیشہ یاد رکھا ہے۔ صرف ذہن میں ہی نہیں بلکہ اپنے دل اور آنکھوں میں ان کی یاد بسائے رکھی ہے اور انہیں آنسوں اور آہوں کے ساتھ یاد رکھا ہے۔
اے جان جاں!میرا جسم بیمار ہو رہاہے۔ کس طرح ممکن ہے کہ جو چالیس سال سےتیرے آستانے پر پڑا ہو تو اس کو قبول نہ کرے؟ میرے خالق، میرے محبوب، میرے معشوق ، میں نے ہمیشہ تجھ سے یہی چاہا ہے کہ میرے وجود کو اپنے عشق کی آتش سے پر کردے، اپنے فراق کی آگ میں مجھے جلا کر میری جان لے لے۔
میرے عزیز!میں قافلہ عشق سے پیچھے رہ جانے کی رسوائی کے سبب اور اس قافلہ سے ملحق ہونے کی بے قراری میں بیابانوں کی خاک چھان رہا ہوں۔ ایک امید ایک آس پر اس شہر سے اس شہر، اس صحرا سے اس صحرا، سردیوں اور گرمیوں میں محو سفر ہوں۔ اے کریم ، اے حبیب، میں نے تیرے کرم سے لو لگائی ہے، تو خود جانتا ہے کہ میں تیرا عاشق ہوں۔ تو بہتر جانتا ہے کہ تیرے سوا کسی کو نہیں چاہتا پس مجھے اپنا وصال نصیب فرما۔
خدایا ایک وحشت نے میرے وجود پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ میں اپنے نفس کو مہار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اے خدا مجھے رسوا نہ کرنا۔ اس ہستیوں کی خاطر جن کی حرمت کو تو نے خود پر واجب کر لیا ہے، اس حرمت کے زائل ہونے سے قبل جو ان کے حرمہائے مطہر پر حرف آنے کا سبب بنے، مجھے اس قافلہ سے ملا دے جو تیری جانب آیا ہے۔
میرے معبود، میرے عشق و معشوق، میں تیرا عاشق ہوں۔ میں نے بارہا تجھے دیکھا ہے، تجھے محسوس کیا ہے، مجھ میں تجھ سے جدا رہنے کی تاب نہیں ہے۔ بہت ہو چکا ، بس اب مجھے قبول کرلے مگر اس طرح کہ میں تیرے لائق رہوں۔
اپنے مجاہد بہن بھائیوں سے خطاب
اس عالم میں میرےمجاہد بہن بھائیوں، اے وہ افراد جنہوں نے اپنے سر خدا کی راہ میں دے دئیے ہیں اور اپنی جانیں اپنی ہتھیلیوں پر رکھے بازار عشق میں بیچنے چلے آئے ہیں، توجہ فرمائیں۔ اسلامی جمہوریہ، اسلام اور تشیع کا مرکز ہے۔
اس وقت امام حسین علیہ السلام کا میدان، ایران ہے۔ جان لیجئے کہ اسلامی جمہوریہ ایک حرم ہے، اگر یہ حرم محفوظ ہے دوسرے حرم بھی باقی ہیں۔ اگر دشمن اس حرم کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوجائے تو کوئی حرم باقی نہ بچے گا۔ نہ حرم ابراہیمی، نہ حرم محمدیﷺ۔
میرے بھائیوں اور بہنوں، اسلامی دنیا کو ہمیشہ سے رہبر و قائد کی ضرورت ہے۔ ایسا رہبر جو شرعی اور فقہی اعتبار سے معصوم کی جانب سے منصوب ہو اور ان سے متصل ہو۔ اچھی طرح جان لیں کہ پاکیزہ ترین عالم دین جس نے دنیا کو دگرگوں کیا اور اسلام کو دوبارہ زندہ کیا یعنی ہمارے امام خمینی علیہ الرحمہ، انہوں نےولایت فقیہ کو اس امت کی نجات کا واحد راستہ جانا ۔ہے سو آپ سب جو یا تو ایک شیعہ ہونے کی حیثیت سے اور دینی نقطۂ نظر سے اس کے معتقد ہیں، یا آپ جو ایک سنی کے عنوان سے عقلی نقطۂ نظر سے اس پر اعتقاد رکھتے ہیں، جان لیں کہ ہر اختلاف سے دور رہتے ہوئے اسلام کی نجات کے لئے خیمہ ولایت کو نہ چھوڑیں۔ یہ خیمہ ، رسول اللہﷺ کا خیمہ ہے۔ اسی کی وجہ سے ساری دنیااسلامی جمہوریہ ایران کی دشمن بنی ہوئی ہے۔ وہ اس خیمہ کو جلا کر ویران کر دینا چاہتی ہے۔ اس کا طواف کیجئے۔ خدا کی قسم، قسم بخدا، بخدا، اگر اس خیمہ کو نقصان پہنچا تو حرم بیت اللہ، حرم رسول اللہﷺ مدینہ، نجف، کربلا، کاظمین، سامرا و مشہد بھی نقصان اٹھائیں گے حتیٰ کہ قرآن کو بھی نقصان پہنچے گا۔
شہدا کے خاندانوں سے خطاب
میرے بچو، میرے بیٹو اور بیٹیو، شہدا کے فرزندو، شہدا کے ماں باپ، اے ہمارے ملک کے روشن چراغو، شہدا کے بھائی بہنو اور انکی وفادار اور دیندار بیویو! شہدا کے بچوں کی آوازیں ہی وہ آوازیں تھیں جن کو میں اس دنیا میں روز سنتا تھا اور ان سے مانوس تھا اور وہ قرآن کی آوازکی مانند ہی مجھے سکون پہنچایا کرتی تھیں انہی آوازوں کو میں اپنی معنویت کا یار و مدد گار گردانتا تھا۔ شہدا کے والدین کی آوازوں سے مجھے خاص انسیت تھی ،میں ان کے وجود میں اپنے والدین کے وجود کو تلاشا کر تا تھا۔
میرے عزیزو ! جب تک آپ اس قوم کے پیشرو ہیں اپنی قدر کو جانئے۔ اپنے شہیدوں کو اپنے اندر جلوہ گر کیجئے۔ اس طرح کہ جب بھی کوئی آپ کو یعنی کسی شہید کے فرزند کو کسی شہید کے باپ کو دیکھے تو اسے یہ محسوس ہو کہ وہ خود شہید کو اسی معنویت روحانیت اور ہیبت و جلال کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔
میں آپ سب سے عفو و بخشش کا طلب گار ہوں۔ میں آپ میں سے اکثر کا حتی کہ شہیدوں کے بچوں کا حق بھی کما حقہ ادا نہ کرسکا ۔ اس کے لئے میں خدائے قدیر سے استغفار کرتا ہوں اور آپ سے معافی کا طلبگار ہوں۔
میری خواہش ہے کہ میرا جنازہ شہیدوں کے فرزند اپنے کاندھوں پر اٹھائیں، شاید ان کے پاکیزہ ہاتھوں کی برکت سے خدا وند متعال میرے جسد خاکی پر رحم فرمائے اور اپنی خاص رحمت کا حق دار قرار دے۔
ملکی سیاستدانوں سے خطاب
مجھے اپنے ملک کے سیاستدانوں سے بھی مختصر بات کرنی ہے۔ چاہے وہ خود کو’’ اصلاح طلب ‘‘کا نام دینے والے ہوں یا خود کو’’ اصول گرا‘‘ کہنے والے ہوں۔ میں ہمیشہ اس بات سے رنجیدہ خاطر رہا ہوں کہ معمولاً ہم دو دھڑوں میں، خدا ، قرآن اور اقدار کو فراموش کردیتے ہیں بلکہ قربان کر دیتے ہیں۔ میرے عزیزوں، آپس میں رقابت ہو یاکوئی جھگڑا ، لیکن اگر آپ کا عمل ، آپ کا مناظرہ، کسی بھی طرح دین اور انقلاب کو کمزور کرنے کا سبب بنے تو جان لیجئے کہ آپ نبی مکرم ﷺ اور اس راہ میں شہید ہونے والوں کی نظرو ں میں مغضوب ہو گئے ہیں، سو اپنی حدوں کو پہچانئے۔ اگر آپ ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو ہمراہ ہونے کی شرط، باہمی توافق اور اصول کے محور پر واضح بیان ہے۔ اصول کوئی بہت تفصیلی اور طویل و عریض چیز نہیں ہے۔ اصول بس چند اہم اصلوں پر مشتمل ہے۔
۱۔ پہلی اصل ولایت فقیہ پر عملی اعتقاد ہے۔ یعنی ولی فقیہ کی نصحیت کو سنئے اور اس کےکہے پر ایک حقیقی ، شرعی اور علمی طبیب کے کہے کی طرز پر عمل کیجئے۔ اگر کوئی اسلامی جمہوریہ میں کسی عہدے کا خواہاں ہے اور کسی منصب پر فائز ہونا چاہتا ہے تو اس کی بنیادی شرط ولایت فقیہ پر عملی اور حقیقی اعتقاد ہے…
ولایت قانونی تمام عوام چاہے مسلمان ہوں یا غیر مسلم سب کے لئے ہے لیکن ولایت عملی،ان عہدہ داروں اور منصب داروں کے ساتھ مخصوص ہے جو ملک کے نظم و نسق کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے خواہاں ہیں وہ بھی ایک اسلامی مملکت کی کہ جو اتنے شہدا اپنے ہمراہ لئے ہوئے ہے۔
۲۔ اسلامی جمہوریہ اور اسکی بنیادوں پر مکمل اعتقادـ اب چاہے اسکی اخلاق و اقدار ہوں یا پھر اسکی معین کردہ ذمہ داریاں ہوں اور وہ ذمہ داریاں چاہے قومی ہوں یا اسلامی۔
۳۔ نیک خو ، خوش عقیدہ اور قوم کے خدمت گذار افراد کی خدمات حاصل کرنا نہ کہ ایسے لوگوں کو بروئے کار لانا جو اگر ایک دور دراز کے دیہات میں بھی کوئی عہدہ سنبھال لیں تو وہ ماضی کے ظالم زمینداروں کی یادیں تازہ کر دیتے ہیں۔
۴۔ بدعنوانیوں سے مقابلہ کریں اور خود کو بدعنوانی اور عیش و نشاط سے دور رکھیں۔
۵۔ اپنی حکومت اور حاکمیت کے دور میں جس عہدہ پر بھی ہوں، لوگوں کا احترام اور ان کی خدمت کو عبادت جانیں اور خود کو عوام کا حقیقی خدمت گار اور اقدار کو بڑھاوا دینے والا بنائیں۔ایسا نہ ہو کہ بے کار کے حیلے بہانوں کے ذریعے اقدار کا بائیکاٹ اور انہیں نظر انداز کریں۔
تمام عہدہ داران ایک شفیق باپ کی مانند، معاشرہ کی تربیت اور نگرانی کی جانب توجہ دیں۔ ایسا نہ ہو کہ اپنے احساسات اور بعض جذبات کی بنیاد پر فانی ہو جانے والے چند ایک ووٹ حاصل کرنے کے لئے ایسی اخلاق اور مزاج کی حمایت کریں جو معاشرے میں بدعنوانی اور طلاق کو فروغ دیتے ہیں اور نتیجتاً خاندانوں کی بنیادیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ یہ حکومتیں ہی ہیں جو خاندانوں کے استحکام کا عامل بھی ہیں اور خاندانوں کی تباہی کا ذریعہ بھی ہیں۔ اگر اصول و ضوابط کے مطابق عمل ہو تو سب کے سب رہبر، انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کے راستے پر گامزن ہونگے۔ ایک بہتر اور دوسروں کی نسبت زیادہ نیک فرد کو تبھی چنا جا سکتا ہے جب ان اصولوں کو مد نظر کھا جائے۔
سب سے معافی کا طلب گار ہوں۔۔۔
اپنے سب ہمسایوں، دوستوں اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے معافی و درگذر کا طلب گار ہوں۔ دشمن کے آنکھ میں تیر اور اس کے ارادوں میں حائل دیوار لشکر ثار اللہ کے سپاہیوں اور قدس کی باعظمت فوج سے بھی عفو و بخشش کا متمنی ہوں، بالخصوص ان لوگوں سے جنہوں نے برادرانہ میری مدد کی۔
میں حسین پور جعفری کا نام لئے بغیر نہیں رہ سکتا، جنہوں نے مکمل خیر خواہی اور بڑے پن کے ساتھ میری ایسے ہی مدد کی جیسےاپنےبچوں کی مدد کی جاتی ہے۔ میں نے بھی ان کو اپنے بھائیوں کی طرح چاہا ۔ حسین پور جعفری کے خاندان اور ان تمام مجاہد بھائیوں سے معافی کا طلبگارہوں جن کو میں نے زحمتوں میں ڈالا۔ ہرچند کہ سپاہ قدس کے تمام افراد کا رویہ میرے ساتھ برادرانہ رہا اور سب نے میری مدد کی۔ میں اپنے عزیز دوست جنرل قاآنی سے بھی معافی چاہتا ہوں جنہوں نے بہت ہی صبر و متانت کے ساتھ مجھے برداشت کیا۔
والسلام
مختلف ذرائے سے لی گئ معلومات
شیخ سبزار علی
Sabzargreen@gmail.com
+916005875163۔