بزمِ نسواں میں جمالِ مصطفےٰ ہیں سیدہ
تحریر : محمد جواد حبیب
تاریخ کے مطالعہ سے یہ با ت واضح ہوجاتی ہے کہ دنیا میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن سے محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے، انہی چیزوں میں سے کمال اور احسان بھی ہیں ۔ اور صاحب کمال اور محسن سے محبت ان کے کمال اور احسان کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ احسان، کبھی ذات ،فرد پر اور کبھی پورے معاشرے پر کیا جاتا ہے، معاشرہ پر احسان سے مراد سماجی، معاشرتی، سیاسی، علمی، اور دینی خدمات ہوتی ہیں، اور ان خدمات کی وجہ سے لوگ انہیں پسند کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اسی طرح اچھی صفات وکمالات کے حامل افراد بھی دو قسم کے ہوتے ہیں : کچھ قابل تعریف ہوتے ہیں لیکن انہیں زندگی کے لیے نمونہ عمل کے طور پر مانا نہیں جاتا، اور کچھ ایسے باکمال افراد ہوتے ہیں جو دوسروں کے لیے نمونہ عمل بن جاتے ہیں۔ اسی طرح نمونہ عمل افراد بھی ایک جیسے نہیں ہوتے ، بعض افراد خاص زمان ومکان ، دین ومذہب اورقوم وملک تک محدود ہوتے ہیں اور بعض افراد کسی بھی محدودیت سے بالاتر ہوکر آفاقی اور عالمگیر ہوتے ہیں، اور انہیں نمونہ عمل اورمشعل راہ سمجھنے والے ہر قوم اور ملک میں ہوتے ہیں۔
انہیں آفاقی اور عالمگیرشخصیات میں سے ایک شخصیت جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا ہیں۔ جن کی شان میں ایک طرف قرآن مدح سرا ئی کررہا ہے تو دوسری طرف نبی اکرم حضرت محمد ﷺ اور ائمہ طاہرینؑ کے دسیوں فرامین موجود ہیں۔ اسی طرح مفکرین عالم بھی مدح، عظمت اور سیرت سیدہ فاطمہ زہراؑ میں اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کرتے نظر آتے ہیں۔
آپ مناصبِ الٰہیہ میں سے نبوت، رسالت اور امامت پر فائز نہ تھیں لیکن تمام انسانوں کے لیے بالعموم اور عالمین کی تمام خواتین کے لیے بالخصوص نمونہ عمل تھیں۔ آپ سلام اللہ علیھا کی حیات مبارکہ اگرچہ مختصر تھی، لیکن اپنی ولادت سے لیکر شہادت تک کا ہر لمحہ قابل مطالعہ اور ہر قول وفعل باعث ہدایت ہے۔ آپ سلام اللہ علیہا کے بارے میں بہت سے علماء و دانشوروں نے بہت کچھ لکھا اس کے باوجود بھی آپ کی عظمت ابھی بھی کماحقہ بیان نہ ہو سکی ہے اور عظمت، وحقیقت زہراؑ محشر کے میدان ہی واضح ہوگی جب میدانِ محشر میں اولین اور آخرین سبھی جمع ہوں گے تو حکم الٰہی ہوگا ، ائے محشر والو! اپنی نظریں جھکاؤ کیوں فاطمہ بنت محمدﷺ میدان محشر سے گزر رہی ہیں ، وہاں پر رک کر آپ ؑ اپنا تعارف پیش کریں گی۔
کسی بھی شخصیت کا تعارف دو طرح سے کرایا جاتاہے۔نسب کے ذریعے اور حسب(ذاتی کردار) کے ذریعے اگر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے نسب کو ملاحظہ کیا جائے تو حضرت فاطمہ س اس باپ کی بیٹی ہیں جو سلطان الانبیاء، امام الرسل ، خاتم النبیین اور رحمۃ للعالمین ہیں جناب فاطمہ کے شوہر سید الاولیاء،امام الاتقیاء اور کل ایمان ہیں ۔حصرت فاطمہ کی اولاد میں سے حسن و حسین وہ ہیں کہ جو جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔تو حضرت فاطمہ کانسب وہ نسب ہے کہ کائنات میں کسی خاتون کا ایسا نسب نہیں ہے۔علامہ اقبال نے جب حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے نسبی کمالات کا تقابل کرانا چاہا۔ تو اولاد آدم کی خواتین میں سے صرف ایک خاتون نظر آئی جو اپنے زمانے کی خواتین کی سردارتھیں اللہ تعالیٰ نے جس کے متعلق ارشاد فرمایا: ’’وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ۔‘‘
اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا: اے مریم!بیشک اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا ہے اور تمہیں پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں دنیا کی تمام عورتوں پر برگزیدہ کیا ہے ۔
علامہ اقبال نے جب جناب فاطمہ بتول کے نسب کا حضرت مریم بتول کےنسب سے موازنہ کیا۔تو حضرت فاطمہ کا نسب حضرت مریم کے نسب سے کہیں بلند نظر آیا۔ اس لیے کہ :
مریم از یک نسبت عیسیٰ عزیز / از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز
’’حضرت مریم کی قدر و منزلت نسب کے اعتبارسے صرف ایک شخصیت کی وجہ سے ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ کی ماں ہیں لیکن حضرت فاطمہ کی عزت وعظمت کے لیے تین نسبتیں ہیں۔‘‘ کہ وہ رسول خدا کی بیٹی ہیں،حضرت علی کی زوجہ ہیں اور حضرت امام حسن و حسین کی ماں ہیں۔
حضرت فاطمہ س کی نسبی عزت و عظمت میں اگر حضرت خدیجہ علیہا السلام کا ذکر نہ آئے تو حضرت فاطمہ س کا نسبی تعارف نا مکمل ہے۔آپ کی والده ماجده حضرت خدیجۃ الکبریٰ وہ عظیم خاتون هیں جن کے بارے میں کہا جاسکتا هے کہ اسلام اس بزرگ ہستی کا مرهون منّت هے، ایسی ماں جنہوں نے شعب ابی طالب میں بائیکاٹ کئے گئے محصور مسلمانوں کے تین سال تک اخراجات کی ذمہ داری سنبھالی اور اپنی تمام مال و دولت کو اس راه میں خرچ کیا، وه ماں جنہوں نے کئی سال تک مکہ میں اعصاب شکن مصیبتوں اور سختیوں کو برداشت کیا، اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آله وسلم کے شانہ به شانہ ره کر اسلام کی مدد کی، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آله وسلم کی همراہی کی بناپر آپ کے جسم مبارک پر پتھر مارے گئے، بے احترامی کی گئی، برا بھلا کہا گیا اور جیسے جیسے یہ مظالم اور مشکلیں بڑھتی رہیں آپ کے صبر و استقامت میں اضافہ هوتا چلا گیا ۔مختصر یہ کہ حضرت خدیجہ علیہا السلام وہ باعظمت ماں ہیں کہ جو اسلام سے پہلے طاہرہ کے لقب سے مشہور ہوئیں۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے حسبی کمالات کو دیکھا جائے تو جناب سیدہ کی عظمت اور شان کو بیان کرنے کے لیے ان کا نسبی تعارف کافی نہیں ہے۔یہ سچ ہے کہ حضرت فاطمہ اس رسول کے لیے بیٹی کی شکل میں رحمت ہیں جو خود رحمۃ للعالمین ہیں۔
’’ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ.‘‘ اور (اے رسول) ہم نے آپ کو بس عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
حضرت فاطمہ بیوی کی شکل میں اس علی کے ایمان کاحصہ ہیں جو خود کل ایمان ہے۔’’برز الايمان كله إلى الكفر كلہ۔‘‘کل ایمان کل کفر کے سامنے نکلا ہے۔اور یہ حقیقت ہے کہ ماں ہونے کے ناطے حضرت فاطمہ کے قدموں میں ان شہزادوں کی جنت ہے جو خود جنت کے سردار ہیں۔
’’الحسن والحسين سيدا شباب اهل الجنة‘‘. ’’حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔‘‘
لیکن یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وجود جناب سیدہ سلام الله علیہا کا تعارف نامکمل ہے۔فاطمہ کے مکمل تعارف کے لیے ان کے حسبی کمالات کو جاننا ہوگا۔حضرت زہراء س کو انسانی فضائل و کمالات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس خاتون کی عظمت کے بارے میں کیا بیان جاسکتا ھے جس کے متعلّق رسول اکرم (ص) نے بارہا ارشاد فرمایا ھےکہ اللّٰہ نے آپ کو دنیا اور آخرت میں تمام عورتوں کی سردار بنایا ہے.
’’روت عائشة وغيرها عن النبي (صلى الله عليه وآله) أنه قال: يا فاطمة أبشري فإن الله تعالى اصطفاك على نساء العالمين وعلى نساء الاسلام وهو خير دين‘‘.’’عائشہ اور اس کے علاوہ دیگرنے نبی اکرم ص سے روایت کی ہے کہ آپ ص نے فرمایا اے فاطمہ آپ کے لیے خوشخبری ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے آپ کو عالمین کی اور اسلام کی عورتوں میں سردار کے طور پرمنتخب کیا ہے۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ س کو جب انسانی کرداروں میں سے تین اہم کرداروں میں ملاحظہ کرتے ہیں تو حضرت فاطمہ س کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا ایک خاتون کی زندگی بیٹی، بیوی اور ماں جیسے انتہائی اہم کردار پر مشتمل ہےاور خاتون ان تین کرداروں کے ذریعے ایک گھر کو جنت نظیر بنا سکتی ہےاور اپنی ذمہ داری ادا نہ کرکے ایک گھر کو برباد بھی کر سکتی ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا نے بیٹی، بیوی اور ماں کے روپ میں وہ کردار ادا کیا کہ آپ اہل بیت ع کے لیے تعارف بن گئی ۔ رسول خدا صلی علیہ والہ وسلم نے جب اہل بیت کا تعارف کرایا تو ان الفاظ سے فرمایا :ھم فاطمۃ و ابوھا و بعلھا و بنوھا‘‘.کہ یہ فاطمہ ہیں اور اس کا باپ، اس کا شوہر اور اسکے بیٹے ہیں۔
حضرت فاطمہ نے جب بیٹی کا کردار ادا کیا تو (ام ابیھا) یعنی باپ کی ماں بن گئیں اور جب بیوی کی شکل میں شوہر کے گھر زندگی گذاری تو علی جیسے بلند وبالا صفات کے حامل شخص حضرت فاطمہ زہرا س کی صفات حمیدہ کو بیان کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں. اور جب ماں کا روپ اختیار کرتی ہیں. تو ان بچوں کی صفات حمیدہ اور اخلاق حسنہ کی ضامن بنیں جو دنیا میں انسانیت اور اسلام کی بقاء کا باعث بنے اور آخرت میں جوانان جنت کے سردار ہوئے.
حضرت فاطمہ س کی زندگی ایک اسوہ عمل ہے. دنیا کی تمام خواتین کو جناب سیدہ کی سیرت کا مطالعہ کر کے کامیاب زندگی گزارنا چاہیے. خصوصاً خواتین کو بیٹی، بیوی اور ماں کی حیثیت سے سیدہ فاطمہ س کی سیرت طیبہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھر اور معاشرے کو صفات حمیدہ اور اخلاق حسنہ سے آراستہ افراد کا مسکن بنانا چاہیے. اللہ تعالیٰ ہم سب کو جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کی سیرت طیبہ پر عمل پیرا ہو کردنیا اور آخرت میں کامیابی کی توفیق عطا فرمائے آمین .آخر میں حضرت زہرا ء س کی شان میں شاعر اہل بیت علیہم السلام جناب ظفرعباس ظفر کا یہ سلام پیش کرتے ہیں
پوچھتے کیا ہو مسلمانو کہ کیا ہیں سیدہ / بزمِ نسواں میں جمالِ مصطفےٰ ہیں سیدہ
چار سو جسکے نجاست کا تصور تک نہیں / آیۂ تطہیر کا وہ دائرہ ہیں سیدہ
عالمِ نسوانیت میں ہیں رسالت کی شریک / یوں پیمبر کے لیے مشکل کشا ہیں سیدہ
مریم و سارہ فضیلت میں سرِ فہرست ہیں / اور فضیلت خود کہے ان سے سوا ہیں سیدہ
ہو رہی ہیں آیتیں نازل اترتے ہیں درود / آج اِس انداز سے زیرِ کساء ہیں سیدہ
ہیں دعُائے فاطمہ زہرا عزادارِ حسین / اور پیمبر کی دعاؤں کا صلہ ہیں سیدہ
زخمِ پہلو، آگ، دروازہ ،غمِ داغ ِ پدر /آپ اپنی ذات میں اک کربلا ہیں سیدہ
دیں کو مشکل میں نہیں چھوڑا کسی بھی دور میں / شِکل زینب میں سرِ کرب و بلا ہیں سیدہ
رد کیا زہرا کا دعویٰ ٔ فدک سو چا نہ یہ / صادقہ ہیں صادقہ یہ سیدہ ہیں سیدہ
اے ظفر کس کی صدا ابھری ہے بیت الحُزن سے / آج کس کے سوگ میں محوِ بکا ہیں سیدہ