فکر امروز
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ
ایمان والو اپنے نفس اور اپنے اہل کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جس پر وہ ملائکہ معین ہوں گے جو سخت مزاج اور تندوتیز ہیں اور خدا کے حکم کی مخالفت نہیں کرتے ہیں اور جو حکم دیا جاتا ہے اسی پر عمل کرتے ہیں
سورہ تحریم آیت 6
ہم دشمنان زہرا س ع سے نفرت یا بیزاری کا اظہار اس لۓ کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت زہرا س ع سے ان کا میراث (فدک) جو ایک بیٹی کی حثیت سے ان کو اپنے بابا پیمبر ص کی طرف سے ملا تھا جو ایک بیٹی کا حق بھی ہوتا ہے وہ دشمنان زہرا س ع نے زبردستی غصب کر لیا اس بنا پر ہم دشمنانِ زہرا س سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں مگر خود ہم بھی دشمنان زہرا س کی سیرت کو اپناتے ہوۓ اپنی بیٹی، اپنی بہن کا میراث غصب کرتے ہیں اور بے بنیاد دلیلوں، بہانوں سے اپنی جوازیت بھی پیش کرتے ہیں اور پھر اگر ہم میراث دیں بھی تو ہم شکر کرنے، خوش ہونے کے بجاۓ اپنی بیٹی اپنی بہن کو پھر غلط اور ظالم سمجھتے ہیں اور ہمیشہ اس پر احسان جتاتے ہیں جیسے اس نے ہمارا ہی حق غصب کیا ہوتا ہے
افسوس ہے حضرت زہرا س سے عشق کا دعوی کرنے والے باپ پر کہ جو اپنے بیٹوں کی دنیا بسانے کی خاطر اپنی بیٹی کو میراث سے محروم کردے اور لعنت کے حقدار ہیں وہ بیٹے بھی جو اپنی دنیا بسانے کی خوشی میں نہ اپبے باپ کو اس گناہ سے روکتے ہیں نہ ہی خود ان میں اس گناہ کا احساس ہوتا ہے اور نہ وہ اپنی بہن اس کا حق دلانے میں کوئ پہل کرتے ہیں ایسے بیٹوں پر افسوس ہے جو اپنے باپ کی آخرت بھی تباہ کرتے ہیں اور اپنی آخرت بھی تباہ کرتے ہیں، اولاد صالح وہ اولاد ہوتی ہے جو اپنے باپ کو بھی گناہ سے روکنے کی کوشش کرے اور خود بھی اس گناہ سے دور رہے اور اپنی بہن کو اس کی میراث دینے پر خود بھی خوش ہوں اور اپنے گمراہ باپ کو بھی مجبور کریں کہ وہ اپنی بیٹی کو اس کا میراث دے۔
حضرت زہرا س ع کے میراث کو غصب کرنے والوں سے بیزاری یا نفرت کرنے کا حق بس اس شخص کو ہے جو خود اپنی بیٹی یا اپنی بہن کا حق غصب نہ کریں نا ہی کرنے دیں ورنہ بیزاری رکھنے کا کوئ فائدہ نہیں ہے بلکہ وہ شخص بھی ان دشمنوں کی طرح ہے جنہوں نے زہرا س ع کا در بھی جلایا اور حضرت زہرا س کی میراث بھی غصب کی۔
دین زبان کا نام نہیں عمل کا نام ہے، ہماری نمازیں، ہماری عزاداری، ہمارا نیاز کرنا، ہماری تمام نیک اعمال تب تک فضول ہی ہیں جب تک ہم حقیقت میں اہلبیت ع کی سیرت پر چل کر عدل اور انصاف سے کام نہ لیں
اپنا حق حاصل کرنے میں ہم اہلبیت ع یا مجتہدین کی طرف سے روایات اور دلائل کا سہارا لیتے ہیں لیکن جب ہمارے پاس دوسروں کا حق ہو وہاں ہم اہلبیت ع اور مجتہدین کی روایات کو نظر انداز کیوں کرتے ہیں، آخر کس امام نے کس مجتہد نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ ہم دوسروں کا حق غصب کرسکتے ہم اگر بہانا بنائیں کہ حق دار نے اپنا حق ہمیں معاف کردیا ہے اپنا حق ہمیں بخشا ہے ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہۓ کہ جو حق دوسروں کا لے رہیں ہیں اس حق کے ساتھ کتنے افراد کی زندگی جڑی ہے یہ حق فقط ایک بیٹی کا نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ حق اس بیٹی کے اولاد کا بھی ہوتا ہے لہذا اس حق کو کسی بھی طرح سے کسی بھی بہانے سے غصب کرنے کا کوئ جواز ہی نہیں بنتا ہے نہ ہی ایک بیٹی یا بہن اپنا حق شریعیت کے مطابق اپنے باپ ، بھائ کو بخش سکتی ہے
دین مجموعہ ہے ہم دین میں کچھ محدود من پسند چیزیں اپنا کر خود کو دیندار تصور کرنے لگتے ہیں، کسی کو نماز سے عشق ہے تو وہ فقط نماز میں ہی اپنی جنت دیکھ رہا ہے،کسی کو عزاداری سے عشق ہے تو وہ فقط عزاداری میں ہی جنت دیکھتا ہے، یعنی اکثر لوگ ایسے ہیں کہ جو وہی چیزیں اس دین سے میں اپناتے ہیں جو ان کے مزاج کے مطابق مناسب ہوتی ہے اور جو چیز ایسے لوگوں کے من پسند دین میں رکاوٹ ڈالے اس کو وہ لوگ ایسے ترک کرتے ہیں کہ جیسے ان کو ترک کرنے کا حکم خدا نے دیا ہو
خدارا اپنے اندر دینی غیرت اور دینی احساس کو زندہ کریں اپنے آپ کو اور اپنے والدین کو غاصب بنیں سے بچائیں اور نہ غاصبین کے طرفدار بنیں ورنہ ہمیں کل روز محشر میں حضرت زہر س کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے گا
عمل سے شیعیہ بن کر دکھائیں نہ کہ زبان سے دین زبان کا نہیں عمل کا نام ہے۔۔
از قلمِ
حیدری فدا حسین