ایران عالم اسلام اور ملت تشیع
تحریر: اختر عباس۔
ایران میں انقلاب اسلامی ۱۹۷۹ میں و
جود میں آیا جس کے ساتھ ہی رضا شاہ پہلوی کی دہاءیوں سے چلی آرہی حکومت کا خاتمہ ہوا اور ایران حقیقی اسلامی جمہوریہ ایران کے بطور پوری دنیا میں متعارف ہوا۔اور بفضل خدا وند متعال آج ۴۴ سال گزرنے کے باوجود بھی ترقی کے مختلف منازل طے کررہا ہے۔ایران چونکہ مشرق وسطٰی میں ایک ایسا ملک ہے جس سے دنیا کے سبھی بڑے طاقتور ملکوں سے بل واسطہ یا بلاواسطہ مقابلہ ہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ افکار امام خمینی ؒ اور انقلاب اسلامی کے بدولت یہ ملک اقوام عالم میں موجود طاقتور ملکوں اور ان کے حمایتی ملکوں کی پابندیوں کے باوجود ان کی سبھی چالاکیوں اور شیطانیوں سے لڑتا رہا اور اپنے خلاف کءے جانے والی سازشوں کا بھر پور جواب دیتا رہا۔یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی ایک پاءیدار اور مستحکم انقلاب کے بطور ابھر رہا ہے ۔خدا کے فضل وکرم سے ایران نہ صرف اپنے ملک اور عوام بلکہ کءی ہمسایہ ملکوں کے عوام کےلءے بھی کام کررہا ہے تاکہ امام راحل کے فرمان کے مطابق انقلاب کا فیض بیرون ایران بھی پہنچنا چاہءے جس کی مثال آج دنیا کے کونے کونے میں انقلاب کی بُو سےاظہار ہوتا ہے۔ کیونکہ حضرت امام خمینی رح دنیا کو اسلامی نظریہ حیات کو اپنانے کی تاکید کرتے تھے اور اسے صرف جہان اسلام کے لیے مخصوص خیال نہیں کرتے تھے – انہوں نے مغربی طرز زندگی کی نفی کی اور مغربی طور طریقوں کو انسان کی نجات کے لیے ناکافی جانا – اسی دوران مسلمانوں میں سے بہت سے مفکرین کے نزدیک اس طرح کے نظریات کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی تھی – گذشتہ پانچ یا چھ صدیوں میں امام خمینی رح وہ واحد رہبر ہیں جنہوں نے نہ صرف انقلاب کے متعلق نظریاتی تھیوری بیان کی اور اس کو عملی جامعہ بھی پہنایا ۔یہی وجہ ہے کہ جو اسلامی قوانین آج تک نام نہاد اسلامی ممالک اپنے اپنے ملکوں میں نافذ نہ کرسکے وہ امام راحل حضرت امام خمینی ؒ نے کرکے دکھا یا ۔انقلاب اسلامی کا مطلب تھا کہ اسلامی نظام قاءم ہو جو صرف دین الہٰی اور شریعت محمدﷺ کےتحت وضع کءے گءے قوانین پر مشتمل ہو جس میں امن و سلامتی کے ساتھ ہر انسان زندگی بسر کرسکے۔مگر یہ بات مغربی طاقتوں کو چبتی گءی اور وہ کءی نام نہاد اسلامی ملکوں کے ساتھ ایران کے خلاف نت نءی پروپگنڈے گھاڈنے لگے ۔اور ایران کے خلاف عالمی سطح پر سازشیں کرکے بے ہودہ مساءل میں الجھانے لگے ۔ وقتا فوقتا ایران اور بیرون ایران انقلاب اسلامی کے خلاف لوگوں کو اکسایا ،سرکاری جاییداد اور عوامی اداروں کا نقصان کروایاتاکہ ایران کے اس الہیٰ انقلاب کو ناکامیاب بنایا جاسکے ۔لیکن ایران کی استقامت سے یہ سب حربے ناکام ہویے۔ آج چونکہ ایران بڑی بڑی اقتصادی پابندیوں کے باوجود عالمی سطح پر ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر ابھر رہا ہے اورترقیاتی لحاظ سے ترقی پزیر ملکوں کے ہمراہ چل رہاہے نے دنیا کو حیرانگی میں ڈال دیا ہے کہ آخر اتنی سخت پابندیوں کے باوجود بہ ملک کس طریقے سے ترقی کے منازل طےکررہا ہے۔یہ بات سچ ہے کہ ایران ابھی بہت سے میدانوں میں پیچھے چل رہا ہے اس کی وجہ سڑف اورصرف اقتصادی پابندیاں اور دنیا میں ایران کے خلاف پروپگنڈا ہے ،بہرحال کءی ترقیاتی میدانوں میں دوسرے ملکوں سے اشتراک بہت ضروری ہے۔حالانکہ اس بات سے ہم بخوبی واقف ہے کہ ایران بیشتر اسلامی ملکوں جن کا اشتراک سیدھے اسراییل اور امریکہ سے ہے کءی گنا آگے ہے۔یہ وہ اسلامی نام نہاد ممالک ہے جن کو ہر کام میں انحصار دوسرے ملکوں پرہے کیونکہ ایسے ممالک نے پہلے ہی مغربی طرز حیات اپنا لی ہے اور اپنی زندگی بھول گءے۔اور آج یہ ممالک دفاعی ،اقتصادی اور دیگر امورات میں دوسرے ملکوں خاصکر مغربی ملکوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور یہ مسلم ممالک مغرب کی ایما پر ایران کےلءے دن بہ دن مختلف شیطانی حربوں کے ذریعے پریشان کرتے رہتے ہیں۔عالم اسلام میں ایسے ممالک ہے جن کے اندر اور باہر کا نظام بیرونی اور مغربی ملکوں کے سایہ میں چلتا ہے ان کے ہاتھ میں صرف باگ ڈور ہے لیکن جنبش کوءی اور دیتا ہے یہی وجہ ہے آج کے مسلمان کو دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔طرح طرح کے مصاءب جھیلنے پڑتے ہیں ،دہشت گردی اور ظلم و تشدد کا مقابلہ ہے لیکن سننے والا کوءی نہیں ہے کیونکہ اس کھیل میں مسلمان پوری طرح بک چکا ہے۔وہ مغرب اور صہونی طاقتوں کے خاطر دین و ایمان اور مسلمانوں کی جانوں کا پرواہ نہیں کرتا یہی وجہ ہے مسلمان ملکوں کا بیشتر خزانہ عامرہ مسلمانوں کو مارنے اور اجاڈنے میں لگ جاتا ہے ۔جسکا اندازہ دن بہ دن مسلمان ملکوں کی حالت زار سے لگایا جاتا ہے جنہیں مغرب اور صہونی طاقتیں انگلیوں پر نچا تے ہیں اور ان ممالک کے اندرونی اور بیرونی سیاست میں سیدھا ان کا ہاتھ ہے جسکے نتیجے میں برا جمان حکومتی اہلکار اسلام دشمن طاقتوں کی ہاں میں ہاں ملاکر دوسرے مسلمان ملکوں کو داو پر لگا کے اپنی سلطنتوں کی حفاظت چاہتے ہیں ۔دنیا میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ مسلما نوں کی آبادی ہونے کے باوجود بھی آج مسلمان غلامانہ زندگی گزار رہے ہیں جسکی وجہ آپسی اختلافات ،رسہ کشی ،غیروں کی سازشیں اور خود مسلمان حکمرانوں کا منافقانہ کردار ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اسی سے زیادہ مسلمان ممالک آج تک قبلہ اول کو بازیاب نہ کرسکے بلکہ کءی مسلمان ملکوں نے امریکہ کے ناجاءز اولاد اسراءیل سے گُل مل کیا اور آج تک فلسطینی عوام طرح طرح کے مشکلات سہتے رہے۔انقلاب اسلامی کے بانی امام راحل حضرت امام حمینی ؒ با ر بار اسکا تذکرہ کرتے تھے کہ مسلمانوں کے درمیان اتفاق ہو تاکہ سبھی مسلمان ممالک اپنے سیاسی ،سماجی اور اقتصادی معاملات کا از خود حل نکال سکے۔لیکن مغرب کی ایما پر کءی مسلمان ملکوں نے مسلکی تفرقات کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے درمیان آپسی اتحاد و اتفاق کو ملیا میٹ کیا۔یہاں تک کہ بیشتر مسلم ممالک ایران کے خلاف ہی صف آرا ہوءے۔لیکن امام کی بصیرت اور دین شناسی نے جس قدر ایران کو اقوام عالم میں ایک حقیقی اسلامی ملک بنا کر یہ ثابت کر کے دکھا یا کہ اسلامی ممالک کے استحکام کےلءے دنیا ءی طاقتوں کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ مدد خدا اور نیت خلوص کی ضرورت ہوتی ہے۔خدا کے فضل و کرم سے ایران آج نہ صرف عالم اسلام بلکہ دوسرے اقوام میں بھی درخشاں ستارے کے مانند ابھرتا نظر آرہا ہے۔اقوام عالم پریشان ہے کہ ایران اتنی سخت پابندیوں کے باوجود کیسے نظام چلارہا ہے۔ ایران چونکہ خطے میں مسلکی عناد کا شکار رہا ہے جسکی وجہ سے کچھ نام نہاد اسلامی ممالک نے کھل کر مغربی ممالک کا ساتھ دے کر ایرانی نظام حکومت کو گرانے کی کوشش کی اور کررہے ہیں ۔ ایران کو اگر چہ آج بھی اندرونی اور بیرونی سازشوں سے مقابلہ کرنا پڑرہا ہے اور ساتھ ہی ایران دشمن طاقتیں پوری شدت کے ساتھ ایران کا نظام درہم برہم کرنا چاہتے ہیں جس کی مثال حالیہ اندونی فسادات اور عوامی املاک کو بڑے سطح پر شر پسندوں کے زریعہ نقصان پہنچانا ہے۔۔لیکن ایران کی حکومت نظام ولایت کی پاسدار ہے اور اپنی حکمت عملی کی وجہ سے وہ دشمن کی تما م سازشوں کو ناکامیاب بناتے جارہے ہے۔یہ بات سچ ہے کہ ایران کو بیشتر اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق ہے جسکا مقابلہ کرنے کےلءے ایران کو سخت اقدات کرنا ناگزیر بن گیا ہے۔ چونکہ مشرق وسطٰی میں ایران کا بڑھتا ہوا اثر رسوخ اور عالمی معاملات میں ایران کی شرکت اب اقوام متحدہ کےلءے بھی اہم بنتا جارہا ہے جس سے عالمی سطح پر ایران کاکردار ناقابل تنسیخ بن گیا ہے ۔اس لءے ایران کی سلامتی کےلءے مزید دشمن کھڑے ہوتے جارہے ہیں۔اور تاریخ نے یہ ثابت کردیا کہ دولت مند اسلامی ممالک ہونے کے باوجود بھی خود کو مسلمان کہنے والے اسلامی ممالک کے سربراہان امریکہ ،برطانیہ ،اسراءیل اور دیگر غیر مسلموں کے سامنے ہاتھ پھیراکر اپنی اور ملک کی سلامتی کے اخراجات ڈھونڈتے ہیں لیکن ایران نے عالمی سطح پر لگایی جانے والی اقتصادی اور دوسری پابندیوں کے باوجود سر اٹھاکر نہ صرف اپنے لءے دفاعی اخراجات مہیا کءے بلکہ کءی دوسرے ممالک کو بھی دشن کی چنگل سے آزاد کرایا۔یہی نظام ولایت ہے جو مسلمان کو سر اٹھا کے جینا سکھاتی ہے نہ کہ سر جھکا کے۔انقلاب اسلامی کے رونما ہونے کے بعد ایران کو ایک اور مسلے کا سامنا رہا وہ ہے مسلکی عناد۔دنیا میں چونکہ سنی مسلمانوں کو آبادی زیادہ ہے جنمیں اندرونی طور کءی فرقے موجود ہے لیکن ملت تشیع صرف ایک ملت ہے ۔ایران کی بیشتر آبادی شیعہ مسلمان ہے اور پوری دنیا میں یہ ملک تشیع کی نماءندگی کرتا ہے اور تقریبا دنیا کے کونے کونے میں رہنے والے شیعہ ایران اور ایران کی نظام حکومت سے محبت و جذبات وابستہ رکھتے ہیں کیونکہ عالمی سطح پر ملت تشیع کے خاطر مساءل اٹھانے کےلءے صرف یہ ایک ملک ہی ہے۔حالانکہ عراق اور شام بھی علوم اہل تشیع کے فروغ کےلءے سرفہرست رہے ہیں لیکن ملت تشیع کو درپیش علمی ،اقتصادی اور دیگر چلینجوں سے جس قدر ایران خدمات انجام دے رہا ہے وہ ناقابل فراموش ہے ۔بدون ایں کی ایران کو خطرناک سیاسی مشکلات کا سامنا ہے لیکن ملت تشیع کی بقا کےلءے ایرانی علما ء ،ایرانی سرکار اور دیگر ادارہ جات دن دوگنی رات چوگنی محنت و مشقت کرتے نظر آرہے ہیں تاکہ علوم اہلبیت ؑ کو گھر گھر پہنچایا جاسکے ۔جس کےلءے انقلاب اسلامی رونما ہونے کے بعد ہی دینی علوم سیکھنے اور سیکھانے کےلءے حوزے اور مدرسے قاءم کءے گءے جن سے آج تک لاکھوں کی تعداد میں اندرونی اور بیرونی طلاب فیض یاب ہوکر اپنے اپنے ملکوں میں دینی علوم کی ترویج کررہے ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ایران وہ واحد ملک ہے کو زرکثیر خرچ کرکے دنیا کے کونے کونے میں تبلیغ علوم اہلبیت ؑ کےلءے علما کرام بھیجتا ہے۔ ایران میں قایم یہ مدرسے نہ صرف پڑ ھنے اور پڑھانے کاکام کرتے ہیں بلکہ نءے تحقیقات کرواکے مسایل کاسہل اور آسان حل ڈھونڈتے ہیں۔قران پاک کے تفسیر ،نہج البلاغہ ،احادیث سے متعلق کءی کتب ایران میں مقیم علما کی نگرانی میں لکھی گءی ہے جو قوم کءلے ایک بہت بڑا سرما یہ ہے ،وہی دوسری طرف فروغ عزاداری ،اہمیت و افادیت عزاداری اور طریقہ عزاداری سے متعلق بھی ایران نے نمایاں کام انجام دءے ہیں ۔زیارت چہاردہ معصومین ؑ ہو یا یوم اربعین کی زیارت پر مومنین کےلءے دینی اور سیاسی سطح پر ایران کے انتظامات کو یہ ملت کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتی ۔کیونکہ آج اگر مومنین زیارت عراق،ایران اور شام کرتے ہیں وہ صرف ایران کے عوام کی شہادتوں کے بدولت ممکن ہوسکا ،خاص کر شہید اعظم جناب سردار قاسم سلیمانی ؒ،ابومہندس مہدی ؒ اور دیگر رفقا کے طفیل ممکن ہوسکا ہے ۔ناءب امام ولی امرالمسلمین حضرت امام آیتہ اللہ سید علی خامنٰہ ی کی زیر نگران ایرانی حکومت بے شک پیغمبرانہ اور امامانہ کردار ادا کررہی ہے تاکہ دنیا کے مسلمان بشمول ملت تشیع حقیقی اسلامی طرز زندگی گزار سکیں ۔ایران بے شک مسلمانوں کی بقا کےلءے مخلصانہ خدمات انجام دے رہا ہے ۔ملت تشیع ایران کی مرہون منت ہے جو اتنی مشکلات کے باوجود بھی دنیا کے کو نے کونے میں شیعہ افراد کی خبر رکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ایران پاءندہ باد