امریکی تسلط کا خاتمہ کیسے ہوا؟
لبنان کی جنگ (2006ء) شہید سلیمانی کا استکباری محاذ کیساتھ پہلا سنگین تصادم تھا۔ انہوں نے 33 روزہ جنگ میں صیہونی حکومت اور اسکے حامیوں کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح انہوں نے اینگلو صیہونی نوقدامت پسندوں کے “گریٹر مڈل ایسٹ” کے منصوبے کو ختم کرکے رکھ دیا۔ ایک ایرانی مترجم کی کتاب “33 روزہ جنگ کی ان کہی کہانیاں” میں اس بارے میں دلچسپ یادیں موجود ہیں۔ 33 روزہ جنگ یا تموز جنگ میں اسرائیل کیخلاف حزب اللہ کی فتح میں اسلام کے اس عظیم رہنماء کے کردار کے بارے میں، صفاالدین تبرائیان لکھتے ہیں: “میں نے خود حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ سے سنا ہے کہ اس جنگ میں ہماری فتح میں حاج قاسم کا کردار شہید حاج عماد مغنیہ کے کردار سے بھی زیادہ تھا۔”
ترتیب و تنظیم: علی واحدی
جنوری کے شروع کے ایام امریکہ کے بعد کی دنیا کے ابھرنے کی علامت بن گئے ہیں۔
3 جنوری 2020ء کو شہید جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد اگلے سال 6 جنوری کو کانگریس پر ٹرمپ کے حامیوں کے قبضے تک جو واقعات پیش آئے، ان سب میں ایک واضح پیغام تھا: اور وہ پیغام تھا “امریکی تسلط کا دور ختم ہوگیا ہے۔” امریکی تسلط کا خاتمہ خاص طور پر مغربی ایشیاء میں واضح ہوچکا ہے۔ شہید سلیمانی اور ان کے بہادر ساتھیوں کی قیادت میں مزاحمتی بلاک کی دلیرانہ کوششوں اور اقدامات کا نتیجہ ہے کہ آج امریکی شکست کی باتیں عام ہیں۔ مغرب کے تسلط پر فاتحہ پڑھنے اور خطے میں ان کی سازشوں کو شکست دینے میں حاج قاسم کے کردار کو واضح کرنے کے لیے ہمیں پہلے مغربی ایشیاء میں واشنگٹن کے اہداف کا جائزہ لینا چاہیئے۔
11 ستمبر کے واقعے کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے مغربی ایشیاء پر فوجی جارحیت شروع کی۔ اس وقت کے امریکی حکام بالخصوص جمی کارٹر کے دور صدارت میں وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر اور مشرق وسطیٰ میں بنیاد پرستی کے نظریہ کے خالق Zbigniew Brzezinski نے مختلف منصوبوں اور سازشوں خاص طور پر “عظیم مشرق وسطیٰ”، یا “نیا مشرق وسطیٰ” کا نظریہ پیش کیا، جو اصل میں پینٹاگون کی جنگی منصوبہ بندی کا حصہ تھا اور اسے پینٹاگان میں تیار کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر، 2006ء میں لبنان کے خلاف اسرائیل کی 33 روزہ جنگ کے دوران (جسے تموز جنگ کہا جاتا ہے)، اس وقت کی سیکریٹری آف اسٹیٹ کونڈولیزا رائس نے ایک اہم تقریر میں کہا تھا “ہم یہاں جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ ایک لحاظ سے نئے مشرق وسطیٰ کی پیدائش کا درد ہے اور ہم جو بھی کریں گے، ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیئے کہ ہم نئے مشرق وسطیٰ کی طرف بڑھیں، نہ کہ پرانے مشرق وسطیٰ کی طرف۔”
ان بیانات میں مغربی ایشیاء کے لیے واشنگٹن کی نیو کنزرویٹو حکومت کے منصوبوں کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ درحقیقت، امریکہ اس منصوبے کو اسلامی اور عرب ممالک پر نافذ کرنا چاہتا تھا۔ وہ خطے کی حکومتوں پر ایک آزاد اقتصادی نظام مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اسرائیل کے گرد ایک بلاک میں تبدیل کرنے کا خواہسمند تھا۔ اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے وہ خطے میں لبرل جمہوری ماڈل کو توسیع دینا چاہ رہا تھا۔ اس وقت کے ریاستہائے متحدہ کے صدر جارج ڈبلیو بش (جونیئر) نے عراق میں صدام کی بعثی حکومت کے خاتمے کے بعد 2003ء میں ایک تقریر میں یہ بات کہی تھی۔ کہ “عراق میں جمہوریت کامیاب ہوگی اور ایسی کامیابی دمشق سے تہران تک یہ خبر پہنچائے گی کہ آزادی کسی بھی قوم کا مستقبل ہوسکتی ہے۔” مشرق وسطیٰ کے قلب میں ایک آزاد عراق کا قیام عالمی جمہوری انقلاب کا ایک اہم واقعہ ہوگا!
کچھ عرصے بعد 2004ء کے موسم سرما میں اس وقت کے وائٹ ہاؤس کے نائب صدر ڈک چینی نے ڈیووس (سوئٹزرلینڈ) میں ورلڈ اکنامک فورم میں اپنی تقریر میں اعلان کیا کہ ان کی انتظامیہ “پورے مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔ مشرق بلکہ اس سے بھی آگے”! یہ منصوبہ واشنگٹن حکومت کے دیگر منصوبوں کی طرح بھاری لاگت کے باوجود ناکام ہوگیا۔ ان تباہ کن جنگوں کے آغاز کے 20 سال بعد عراق اور افغانستان کی موجودہ سیاسی صورتحال اس ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امریکی معیشت کو کھربوں ڈالر کے نقصان کے علاوہ جنگوں کے نتیجے میں خطے کے ممالک میں بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔ براؤن یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق 2001ء سے اب تک ان مسلط کردہ جنگوں میں مشرق وسطیٰ کے 900,000 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں افغانستان کے 70,000 سے زیادہ اور عراق میں تقریباً 300,000 شہری شامل ہیں۔
امریکہ دہشت گردوں اور تکفیری گروہوں کی حمایت سے خطے میں اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہتا تھا۔ داعش جیسے گروہ اسی مقصد کے لئے تشکیل دیئے گئے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعتراف کیا تھا کہ بش اور اوباما کے دور میں امریکی انتظامیہ نے اس خطے کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ واشنگٹن کو مغربی ایشیاء میں 30 سالہ مذہبی جنگ پیدا کرنے کی اپنی حکمت عملی پر عمل کرنے کا موقع مل سکے اور اس کے لئے مذہبی دہشت گردی کو پروان چڑھایا گیا۔ بہرحال جس چیز کو مغربی حکومتوں نے اپنے حساب کتاب میں شامل نہیں کیا تھا، وہ حاج قاسم سلیمانی نامی ایک کردار تھا۔ ایک ماہر اور منفرد اسٹریٹیجسٹ، جس نے سامراجی منصوبوں اور سازشوں کو ناکام بنایا اور خطے میں ان کی تباہ کن موجودگی کو ختم کر دیا۔
لبنان کی جنگ (2006ء) شہید سلیمانی کا استکباری محاذ کے ساتھ پہلا سنگین تصادم تھا۔ انہوں نے 33 روزہ جنگ میں صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح انہوں نے اینگلو صیہونی نو قدامت پسندوں کے “گریٹر مڈل ایسٹ” کے منصوبے کو ختم کرکے رکھ دیا۔ ایک ایرانی مترجم کی کتاب “33 روزہ جنگ کی ان کہی کہانیاں” میں اس بارے میں دلچسپ یادیں موجود ہیں۔ 33 روزہ جنگ یا تموز جنگ میں اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی فتح میں اسلام کے اس عظیم رہنماء کے کردار کے بارے میں، صفاالدین تبرائیان لکھتے ہیں: “میں نے خود حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ سے سنا ہے کہ اس جنگ میں ہماری فتح میں حاج قاسم کا کردار شہید حاج عماد مغنیہ کے کردار سے بھی زیادہ تھا۔”
شہید سلیمانی نے فلسطین میں مزاحمتی محاذ کو مسلح اور مضبوط بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ایک حقیقت جس کا اعتراف اسلامی جہاد گروپ کے سیکرٹری جنرل زیاد النخلیہ نے چند سال قبل کیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ آج غزہ کو جو طاقت اور سہولیات حاصل ہیں، وہ شہید سلیمانی کی عظیم کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ سردار سلیمانی کا اسٹریٹجک قدم غزہ کی پٹی پر میزائل اور ہتھیار بھیجنے سے شروع ہوا اور یہ ایک معجزہ تھا۔ اس عظیم مزاحمتی رہنماء نے ذاتی طور پر اس سمت میں قدم بڑھانے کے لئے کئی ممالک کا سفر کیا۔ یہاں تک کہ اس فوجی طاقت کو منتقل کرنے کے لیے اور مطلوبہ منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ایک سے زیادہ مرتبہ مقبوضہ علاقوں کے اندر تک کا سفر کیا۔
آج بھی بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات حیران کن ہے کہ غزہ کی تقریباً 360 کلومیٹر لمبی زیر زمین سرنگیں شہید قاسم سلیمانی اور عماد مغنیہ کی اختراعی حکمت عملیوں میں سے ایک تھیں۔ آخر میں بس اتنا کہیں گے کہ شہید سلیمانی نے داعش دہشت گرد گروہ کے حملے کے خلاف، مزاحمت کے بلاک کی قیادت کرتے ہوئے استکباری محاذ کی سازشوں کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ داعش کی شکست درحقیقت خطے میں امریکی منصوبوں کی ایسی شکست تھی، جس نے خطے پر اس کی تسلط کی دیرینہ خواہش کو ملیا میٹ کر دیا۔