لبنان// جمعیت علمائے مسلمان لبنان کے سربراہ شیخ غازی یوسف حنینہ نے مؤسسہ سراج المنیر میں منعقدہ تکفیری اور افراطی گرہوں سے مقابلہ کی عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت علمائے مسلمان 41 سال قبل، کثیر تعداد میں علمائے اسلام کی موجودگی میں وجود میں آئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ جمعیت کی تاسیس کے دوران امام راحل نے حمایت کی، یہ جمعیت 350 فلسطینی اور لبنانی شیعہ سنی علماء کی موجودگی میں وجود میں آئی۔
جمعیت علمائے مسلمان لبنان نے کہا کہ جمعیت کی اولین ترجیح، شعیہ سنی علماء کے مابین یکجہتی اور وحدت ہے، یہاں کسی کو تشیع یا تسنن کی دعوت نہیں دی جاتی، بلکہ اسلام ناب محمدی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی جانب بلایا جاتا ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چار مذاہبِ اسلامی کا ماننے والا مسلمان ہے اور ہم بھی انہیں مسلمان سمجھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جمعیت علمائے مسلمان وحدت امت کے ساتھ ساتھ اسلام کے اصل چہرے کو آشکار اور اسلامی مزاحمتی محاذوں کی حمایت کرتی ہے، کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ مزاحمت ہی وہ واحد راستہ ہے جو فلسطین کو اہل فلسطین کے حوالے کر دے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ کئی سالوں سے مسلمانوں کے درمیان موجود اختلاف و افتراق کی اصل جڑ، وہابی تفکر ہے اور ہم اس تفکر کے ساتھ مقابلے میں ہیں۔
جمعیت علمائے مسلمان لبنان کے سربراہ نے کہا کہ اسلامی معاشرے کی قیادت، اسلامی معاشرے کی عزت و آبرو کا باعث ہے اور ہم اس میدان میں رہبرِ انقلابِ اسلامی کو رہبر کے عنوان سے قبول کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مزاحمتی محاذ کی حمایت کرنے والے ممالک ایک ہی خط پر گامزن ہیں۔ حقیقت میں اس مزاحمت کا محور رہبرِ انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای ہیں کہ آپ اس کو منزل مقصود تک پہنچانے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں۔
جمعیت علمائے مسلمان لبنان کے سربراہ نے کہا کہ سوال ہوتا ہے کہ کیسے ایک اہل سنت عالم دین کا ولی شیعہ علماء میں سے ایک ہو سکتا ہے؟ اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان کا اپنا ایک مذہب ہوتا ہے، لیکن سختیوں سے گزرنے، ایک امت بننے اور امت مسلمہ کی سعادت کی راہ، ایک محور اور رہبر پر منحصر ہے اور اس عہدے پر رہبرِ انقلابِ اسلامی فائز ہیں، لہٰذا سب کو ان کی پیروی کرنی چاہیئے۔