2b9e997c A644 4e67 9920 8cdfbf42f5ab

اللہ کی رضا کے خاطر محبت کرنے سے روز قیامت اللہ تعالیٰ کا سایہ نصیب ہوگا!!

اللہ کی رضا کے خاطر محبت کرنے سے روز قیامت اللہ تعالیٰ کا سایہ نصیب ہوگا!!

تحریر ۔ توصیف احمدوانی ڈائریکٹر سید حسن منطقی اکیڈمی اونتی پورہ کشمیر انڈیا!_

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے ”ان اللہ یقول یوم القیامۃ:این المتحابون بجلالی الیوم ؟اظلھم فی ظلی لا ظل الا ظلی “( صحیح مسلم ،رقم الحدیث. 2566)” بے شک اللہ تعالی قیامت کے دن ارشاد فرمائے گا: آج میری خاطر محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ میں انہیں اپنے سائے میں جگہ دیتا ہوں جب کہ آج میرے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں“ نیز حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ”سات قسم کے افراد کو اللہ تعالی اپنا سایہ نصیب کرے گا، جب اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا-
وہ دو آدمی جنہوں نے محض اللہ کی رضا کے لیے ایک دوسرے سے محبت کی اسی پر اکٹھے ہوئے اور اسی پر جدا جدا ہوئے (متفق علیہ)… یاد رہے کہ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے دلی محبت کرتا ہو تو وہ اسے اگاہ کر دے کہ اسے اس سے محبت ہے اس سے ان کے درمیان محبت دا دیر قائم رہے گی-
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس سے گزرا، اس وقت حضور کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا ،اس نے کہا اے اللہ کے رسول مجھے اس آدمی سے اللہ کے لیے محبت ہے- تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اسے اس بات کی خبر دی ہے ؟اس نے کہا: نہیں، تو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اور اسے بتا کر آؤ اس سے تمہارے درمیان محبت زیادہ دیر تک قائم رہے گی–
(مسند احمد وابوداؤد) ۲….. ایک دوسرے سے ہمدردی کرنا…. ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا ہمدرد ہونا چاہیے اس طرح اس کی تکلیف اپنی تکلیف محسوس کرے اور جہاں تک ہو سکے بوقت ضرورت اس کا ساتھ دے– نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے
”من کان معہ فضل ظہر فلیعد بہ علی من لا ظھر لہ ومن کان لہ فضل من زاد فلیعد بہ علی من لا زاد لہ “ (صحیح مسلم، رقم الحدیث 1031)
جس آدمی کے پاس اضافی سواری ہو، تو اسے اس شخص کو دے دے جس کے پاس سواری نہ ہو- اور جس کے پاس کھانے پینے کی اضافی چیز ہوں وہ اسے اس آدمی کو دے دے جس کے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ہو “حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں: کہ ایک وقت تھا جب کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی پر دینار و درہم کو ترجیح نہ دیتا تھا جبکہ آج ہمیں مسلمان بھائی کی بنسبت مال و دولت زیادہ محبوب ہے راوی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے سنا: آقا کریم نے ارشاد فرمایا:”کم من جار متعلق بجارہ یوم القیامۃ یقول :یا ربی ھذا اغلق بابہ دونی فمنع معروفہ“
(الادب المفرد) کتنے پڑوسی قیامت کے دن اپنے پڑوسیوں سے چمٹے ہوے ہوں گے ان میں سے ہر ایک اپنے پڑوسی کے بارے میں کہے گا :”اے میرے رب اس نے میرے سامنے اپنا دروازہ بند کر کے اپنی نیکی کو روک لیا تھا“
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں؛ کہ ایک صحابی کے گھر میں بکرے کا سر بطور ہدیہ پیش کیا گیا تو اس نے کہا :میرا فلاں بھائی اور اس کے بچے مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہیں چنانچہ وہ گوشت اس کے گھر میں بھیج دیا جب وہ دوسرے صحابی کے گھر میں پہنچا تو اس نے بھی وہی بات کی جو پہلے صحابی نے کی تھی اور گوشت تیسرے صحابی کے گھر میں بھیج دیا— اس طرح یہ گوشت سات گھروں میں سے ہوتا ہوا پھر پہلے صحابی کے گھر پہنچ گیا= تب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:”ویوثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃ“….(3)
ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے خندہ پیشانی اور مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ملنا چاہیے – نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا…. ”ولا تحقرن من المعروف شیئا ،ولو ان تلقی أخاک بوجہ طلق “صحیح مسلم ،رقم الحدیث ،(2626) تم نیکی کے کسی کام کو حقیر مت سمجھو اگر تم اپنے بھائی سے ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ ملاقات کرو— مسلمان بھائی سے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ملنا بھی صدقہ ہے جیسا کہ پیغمبر اعظم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے…”تبسمک فی وجہ اخیک صدقۃ ،وامرک بالمعروف و نھیک عن المنکر وارشادک الرجل فی ارض الضلال لک صدقۃ ،وبصرک للرجل الردی لک صدقۃ ،واماطتک الحجر والشوکۃ والعظم عن الطریق لک افراغک من دلویک لک صدقۃ “.
جامع ترمذی ،رقم الحدیث( 1956)
اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے! نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا صدقہ ہے- راستے سے پتھر، کاٹے، ہڈی کو ہٹانا تمہارے لیے صدقہ ہے کمزور نظر والے کو دکھلانا تمہارے لیے صدقہ ہے اور اپنے ڈول سے بھائی کے ڈول میں پانی ڈالنا یہ بھی تمہارے لیے صدقہ ہے —-
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں کا آپس میں مصافحہ کرنا مغفرت کے اسباب میں سے ہے نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے:” جو دو مسلمان بوقت ملاقات ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑتے مصافحہ کرتے ہیں اللہ تعالی پر ان کا حق ہے کہ وہ ان کی دعا کو قبول فرمائے اور ان کے ہاتھ الگ الگ ہونے سے قبل ان کی مغفرت کر دے“(مسند امام احمد) یاد رہے کہ مسلمان سے اچھی اور پاکیزہ گفتگو کرنا بھی صدقہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے :”الکلمۃ الطیبۃ صدقۃ “ پاکیزہ کلمہ صدقہ ہے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں