188

آہ ! آغا جان۔۔۔۔۔۔۔۔ پیکر سادگی و خودداری

آہ ! آغا جان۔۔۔۔۔۔۔۔ پیکر سادگی و خودداری

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

کسے پتا تھا کہ آغا صاحب اتنی جلدی ہمیں داغ مفارقت دے کر چلیں گے۔اگر چہ مرحوم و مغفور کچھ عرصہ سے صاحب فراش تھے،مگر ان کے اچانک اس دار فانی کو خیرباد کہنے نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ کسی کو امید نہ تھی کہ آغاصاحب اتنی جلدی ہم سے بچھڑ جائیں گے ۔ ان کے انتقال کی المناک خبر سے پاوں تلے زمین نکل گئی،قلوب و اذہان مغموم و محزون ہوگئے ،آنکھیں اشکبار اور فضائیں سوگوار ہوگئیں۔

کون جانتا تھا کہ آمد بہار کے ساتھ ہی “مضمون” یمبرزل ” پڑھنے والے خانوادے کے معزز افراد کے مرقد پر پہلے” گل نرگس ” ہی ماتم کناں ہوگا ۔ ۲۵ مارچ ۲۰۲۱ کو مرحوم و مغفور سید رضا صاحب ،۱۶ مارچ اور ۲۳ مارچ ۲۰۲۳ کو با الترتیب سید کلیم صاحب اور حجت الاسلام مولانا سید سخاوت حسین موسوی طاب ثراہ ہم سے جدا ہوکر ہمیں سوگوار کرگئے۔

چمن سے رخصت فانی قریب ہے شاید
کچھ آج بوئے کفن دامن بہار میں ہے

اس خانوادے کا ہم پر بڑا احسان ہے -خصوصًا آغا سید سخاوت حسین موسوی صاحب کے والد ماجد مرحوم و مغفور سید رضا صاحب کے ہم مرہون منت ہیں کہ جس نے عنفوان شباب سے ہی مقامی سطح پر ایسی خدمتیں انجام دی جن کا بدلہ ہم ہرگز چکا نہیں سکتے۔درس و تدریس سے لیکر تجہیز و تکفین تک مرحوم ہمیں پیش پیش رہے۔ سینکڑوں تشنگان علم کو قرآن و احکام دین کی تعلیم سے سیراب کیا اور یخ بستہ راتوں اور گٹھا ٹوپ اندھیرے میں اپنی ضعیف العمری کا پرواہ کئے بغیر اپنی آخری عمر تک تجہیز و تکفین کے فرائض کو انجام دیتے رہے ۔اس کے علاوہ مرحوم کی دوسری خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔

حجت الاسلام والمسلمين مولانا سید سخاوت حسین موسوی طاب ثراہ بھی اسی خاندان کے چشم و چراغ تھے کہ جس نے خدمت خلق کو اپنا نصب العین بنالیا تھا۔ اس میں یہی جذبہ خدمت گزاری کار فرما تھا کہ مرحوم و مغفور سید رضا صاحب نے اپنے لخت جگر کو حصول تعلیم کے لئے قم المقدسہ بھیجا ورنہ مولانا مرحوم بھی عصری تعلیم میں اپنی صلاحیتوں و قابلیتوں کی بدولت کوئی اونچا مقام حاصل کرسکتے تھے ۔مگر مرحوم نے اپنی جوانی کی امنگوں اور آرزوؤں کو کچل کر دینی خدمت گزاری کی راہ کو اپنا لیا۔

مولانا سید سخاوت حسین صاحب اپنی ذات میں ایک کھلی کتاب تھے جس کا ہر باب درس آموز اور قابل مطالعہ ہے۔ وہ گوناگوں اوصاف کے مالک تھے ۔پرہیز گاری۔صاف گوئی،حق بیانی ،بےباکی غرض تمام انسانی صفات کا عملی پیکر تھے۔انہوں نے جس سادگی سے زندگی گزاری وہ قابل رشک ہے۔کچھ ایسی صفات جن کی وجہ سے ناچیز بھی ان کا گرویدہ تھا، قناعت اور خودداری ہے۔انہوں نے کھبی بھی کسی کے سامنے اپنا ہاتھ دراز نہیں کیا اور مال و منال کی جمع آوری کو اپنا مقصد حیات نہیں بنایا بلکہ اس کے بجائے اپنی خودی کا سودا کئے بغیر غربت و افلاس میں اپنا نام پیدا کیا۔

مولانا مرحوم غریب پروری میں اپنی مثال آپ تھے۔ایک ایسا واقعہ جس کا ناچیز نے آج تک کسی سے تذکرہ نہیں کیا تھا مگر آج اس کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں تاکہ قارئین کرام مرحوم کے گوناگوں صفات وخصائل سے واقف ہوں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ناچیز I.P.S.GANGOO میں اپنی خدمات انجام دے رہا تھا تو مرحوم سخاوت حسین صاحب ناچیز کو اپنا گھر مع FEE RECORD بلاتے تھے اور غریب و نادار بچوں کی بقایا فیس از خود ادا فرماتے تھے ۔الغرض وہ اتنے صفات و خصائل کے مالک تھے جن کا احاطہ مشکل ہے۔

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہئے بحر بیکراں کے لیے

وہ رات قیامت کی رات تھی جس رات مولانا مرحوم ہم سے
بچھڑ گئے۔کسی نے نہیں سوچا تھا کہ مرحوم اتنی جلدی داعی اجل کو لبیک کہیں گے۔ابھی اس قوم کو مرحوم کے وجود پر فیض اور سایہ عاطفت کی ضرورت تھی۔محراب و ممبر یتیم ہوگئے۔اب آنکھیں ان کے دیدار کو ترس رہی ہیں۔وہ آغا صاحب کہاں گئے جو حالات زمانہ اور لوگوں کی بے اعتنائی کے سبب گھر میں محصور ہوکر رہ گئے تھے۔

‏اب جبکہ مرحوم ہمارے درمیان موجود نہیں ہے،ہمارے اوپر دو بڑی ذمہ داریاں عائد ہیں۔ایک انکے خانوادے کی دیکھ بھال اور دوسرا انکے قلمی آثار کو شائع کرنا۔تاکہ انکے انتقال کے بعد ان کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے اور آغا صاحب کے رشحات قلم سے قوم مستفيد ہوسکے۔

‏آغا صاحب اگر چہ ہماری نظروں سے دور ہوگئے،مگر پھر بھی ان کی یاد ہمارے دلوں سے کھبی محو نہ ہوگی۔ان کی سادگی اور ان کا متین و سنجیدہ چہرہ ہمیشہ آنکھوں کے سامنے چمکتا نظر آئے گا۔

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

سجاد مضطر
rezaali786786@gmail.com

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں